فلسطین کی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس نے اسرائیل سے منسلک ہیکنگ کمپنی این ایس او گروپ کے تیار کردہ جاسوسی کے سافٹ ویئر تین سینیئر فلسطینی اہلکاروں کے فونز پر پائے گئے ہیں اور اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ وہ ان کی خبریں سننے کے لیے ملٹری گریڈ پیگاسس سافٹ ویئر استعمال کر رہا ہے۔
ہیکر کمپنی کے خلاف فلسطینیوں کے الزامات ایسے وقت میں سامنے آئے جب تنازعے کا شکار اسرائیلی فرم نے اعتراف کیا کہ اس نے ان امریکی الزامات کے تناظر میں اپنے آنے والے چیف ایگزیکٹیو کی تقرری کو منسوخ کر دیا ہے کہ اس کا سپائی ویئر دنیا بھر کی جابر حکومتوں کے ذریعے استعمال کیا گیا ہے۔
وزارت خارجہ کے جمعرات کے اعلان میں پہلی بار فلسطینی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ این ایس او سافٹ ویئر ان کی جاسوسی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس ہفتے کے شروع میں چھ فلسطینی انسانی حقوق کے کارکنوں کے فونز پر اسی سافٹ ویئر کا پتہ چلا، جن میں سے تین ان سول سوسائٹی کی تنظیموں کے لیے کام کرتے تھے جنہیں اسرائیل نے متنازع طور پر دہشت گرد گروہ قرار دیا ہے۔
سپائی ویئر کو خفیہ طور پر انسٹال کیا جا سکتا ہے اور یہ فون اور اس پر ہونے والی ریئل ٹائم مواصلات تک مکمل رسائی فراہم کرتا ہے۔
اسرائیلی حکام نے فوری طور پر اس الزام کا جواب نہیں دیا۔ این ایس او گروپ نے مخصوص الزامات پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے صارفین کو ظاہر نہیں کرتے اور ان کے پاس ان افراد کے بارے میں معلومات نہیں ہیں جنہیں صارف نشانہ بناتے ہیں۔
معاون فلسطینی وزیر خارجہ برائے سیاسی امور احمد الدیک نے کہا کہ ایک ’پیشہ ورانہ فلسطینی ادارے‘ نے کئی فونز کا معائنہ کیا اور ان میں سے تین پر پیگاسس کا پتہ لگایا۔ یہ فوری طور پر واضح نہیں تھا کہ آیا ان نتائج کی تصدیق بیرونی محققین نے کی یا نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انسانی حقوق کے کارکنوں کے فونز کی ہیکنگ کی ٹورنٹو یونیورسٹی کے سٹیزن لیب کے سیکیورٹی محققین اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے آزادانہ طور پر تصدیق کی تھی۔ ایمنسٹی نے کہا کہ اسے وزارت خارجہ کے نتائج کی تصدیق کرنے کے لیے نہیں کہا گیا ہے۔ سٹیزن لیب نے فوری طور پر اس ضمن میں جواب نہیں دیا۔
الدیک نے کہا: ’ہمیں 100 فیصد یقین ہے کہ یہ تینوں فون ہیک ہوئے ہیں۔ یہ اعلیٰ حکام کی ملکیت تھے۔‘
وزارت خارجہ کے ایک بیان میں اسرائیل کو ہیکنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور اسے ’بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلی اور غیر اخلاقی خلاف ورزی‘ قرار دیا اور اس میں ملوث تمام فریقوں کے بین الاقوامی بائیکاٹ پر زور دیا۔
این ایس او گروپ حالیہ برسوں میں اس وقت تنقید کی زد میں آ گیا جب اس کا سافٹ ویئر دنیا بھر میں حقوق کے کارکنوں، صحافیوں، اختلاف رائے رکھنے والوں اور دیگر عوامی شخصیات کے فونز پر پایا گیا۔
امریکی بائیڈن انتظامیہ نے اس مہینے کے شروع میں اس کمپنی کی امریکی ٹیکنالوجی تک رسائی کو محدود کردیا، اور موقف اختیار کیا کہ این ایس او کے ٹولز کا استعمال ’بین الاقوامی دباؤ‘ کا باعث بنے۔
امریکی اعلان کے بعد، گروپ نے قیادت کی منتقلی کو منسوخ کر دیا۔ ایٹزک بین بینسٹی کمپنی کے بانی، شالیو ہولیو، کے بعد سی ای او کا عہدہ سنبھالنے کے لیےتیار تھے۔ کمپنی کے اندرونی ذرائع نے جمعرات کو ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ بین بینسٹی نے نیا عہدہ سنبھالنے سے پہلے استعفیٰ دے دیا۔
ذرائع نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی کیونکہ کمپنی نے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا ہے۔
اسرائیلی حکومت این ایس او گروپ کو ریگولیٹ کرتی ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ آیا وہ سافٹ ویئر استعمال کرتی ہے۔ حکام نے اس بات کی تردید کی ہے کہ حقوق کے گروپوں کوغیر قانونی قرار دینے کے فیصلے اور این ایس او سافٹ ویئر کے استعمال کے درمیان کوئی تعلق تھا۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کی مصنوعات کو سیکورٹی ایجنسیاں جرائم اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔