روسی صدر ولادی میر پوتن نے اس امریکی میڈیا رپورٹ کی تردید کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ماسکو ایران کو ایک جدید ترین سیٹلائٹ سسٹم فراہم کرنے جا رہا ہے جو اس کی جاسوسی کی صلاحیتوں میں بڑے پیمانے پر بہتری لائے گا۔
جمعرات کو واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ماسکو تہران کو ایک ہائی ریزولوشن کیمرے والے کینپوس- V سیٹلائٹ فراہم کرنے کی تیاری کر رہا ہے جس کی مدد سے ایران مشرق وسطیٰ میں اپنے مخالفین کی تنصیبات کی نگرانی کرسکتا ہے۔
آئندہ بدھ کو جنیوا میں امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کرنے والے روسی صدر نے اس رپورٹ کو ’فضول‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔
انہوں نے گروپ سیون اور نیٹو سربراہ اجلاس سے قبل ایک انٹرویو میں این بی سی نیوز کو بتایا ’ہم ایران کے ساتھ فوجی اور تکنیکی معاملات سمیت کئی منصوبوں میں تعاون کو فروغ دے رہے ہیں لیکن یہ محض ایک جعلی خبر ہے۔
’کم سے کم مجھے اس قسم کے کسی معاملے کے بارے میں نہیں معلوم۔ جو لوگ اس کے بارے میں بات کر رہے ہیں شاید وہ اس کے بارے میں زیادہ معلومات رکھتے ہوں گے۔ یہ محض غیر منطقی اور فضول ہے۔‘
صدر منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر یورپ پہنچنے والے جو بائیڈن سے توقع ہے کہ وہ پوتن کے ساتھ اپنی ملاقات میں امریکی انتخاب میں مداخلت اور ہیکنگ سے متعلق متعدد شکایات پر بات کریں گے۔
واشنگٹن پوسٹ نے امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے موجودہ اور سابقہ عہدے داروں کے حوالے سے کہا کہ روسی سیٹلائٹ کی لانچنگ چند ماہ میں ہو سکتی ہے اور یہ پیش رفت ایرانی انقلابی گارڈز کے رہنماؤں کے روس کے متعدد دوروں کا نتیجہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ یہ سیٹلائٹ امریکی صلاحیتوں کے باوجود اسرائیلی تنصیبات اور عراق میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کی نگرانی کرسکتا ہے۔
ایران کے اسرائیل سمیت خطے کے متعدد ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں جس سے یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ وہ یمن، عراق اور لبنان میں اپنی پراکسی قوتوں کے ساتھ سیٹلائٹ سے حاصل معلومات شیئر کرسکتا ہے۔
پوسٹ کے مطابق یہ سیٹلائٹ روس سے لانچ کیا جا سکتا ہے حالانکہ روسی ٹرینرز زمینی عملے کی مدد کے لیے شمالی ایران کے شہر کاراج کے قریب ایک نئی سائٹ پر ایرانی عملے کی تربیت کر رہے ہیں۔
اس پیش رفت کی تفصیلات ایک ایسے نازک وقت پر سامنے آئی ہیں جب عالمی طاقتیں امریکہ کو ایران جوہری معاہدے پر واپس لانے اور تہران کو اس پر عمل درآمد کرانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔