بلال عباس پاکستان کی ڈراما انڈسٹری کے نامور اداکار ہیں، اور گزشتہ ماہ ڈرامے ’پیار کے صدقے‘ کے لیے انہیں بہترین اداکار کا ایوارڈ بھی ملا ہے۔
اس کے علاوہ وہ ’او رنگریزہ‘، ’چیخ‘، اور ’ڈنک‘ میں بھی اپنی اداکاری کو منوا چکے ہیں۔
اگرچہ بلال عباس نے آغاز ایک فلم سے ہی کیا تھا جس کی ناکامی کے بعد انہوں نے ڈراموں کا رخ کرلیا اور اب پانچ سال بعد وہ دوبارہ نبیل قریشی اور فضہ علی میرزا کی فلم ’کھیل کھیل میں‘ سجل کے ساتھ کام کررہے ہیں۔
یاد رہے کہ یہ فلم 1971 میں سقوط مشرقی پاکستان کے تناظر میں بنائی گئی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے بلال عباس سے اس ضمن میں خصوصی ملاقات کی اور ان سے یہ پوچھا کہ ’کیا پہلی فلم کی ناکامی کا خوف تھا کہ دوسری فلم کرنے میں پانچ سال لگا دیے؟‘
اس بات پر مسکراتے ہوئے بلال عباس نے کہا کہ ’میں گھبرایا نہیں تھا بلکہ میں چاہتا تھا کہ دوسری فلم اچھی اور پورے انہماک سے کروں، کیونکہ مجھے پہلی فلم کا ردِ عمل اچھا نہیں آیا تھا، اس لیے میں نے ٹی وی کی جانب رخ کیا اور جب عوام نے مجھے تسلیم کیا تو میں نے فلم کا رخ کرلیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان میں ٹی وی زیادہ دیکھا جاتا ہے۔‘
بلال عباس کا کہنا تھا کہ ’میں ہروقت رومانس نہیں کرسکتا، اگر ہر پراجیکٹ میں رومانس کیا تو یکسانیت کا شکار ہوجاؤں گا۔‘
71 کی جنگ اور سقوطِ ڈھاکہ کے تناظر میں بنائی جانے والی یہ فلم ’کھیل کھیل میں‘ کرتے ہوئے کیا بلال کو تشویش ہوئی تھی؟ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے کردار میں کچھ ایسا نہیں ہے جس سے وہ پریشان ہوتے مگر پاکستان میں سقوطِ ڈھاکہ کے بارے میں کوئی فلم، کوئی ٹیلی فلم نہیں بنی ہے کیونکہ پاکستان میں یہ حساس موضوع ہے اور لوگ اس بارے میں بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہدایت کار نبیل قریشی اور فضہ علی میرزا عمومی طور پر کمرشل فلمیں ہی بناتے ہیں، مگر اس مرتبہ انہوں نے یہ حساس موضوع چنا ہے۔‘
بلال عباس نے بتایا کہ وہ اس لیے مطمئن تھے کہ وہ پاکستانی فلمی صنعت کے بہترین فلم سازوں کے ساتھ کام کررہے تھے۔
1971 کے واقعات سے متعلق بلال عباس نے کچھ تحقیق بھی کی تھی، باقی اہم معلومات ان کو پہلے سے تھیں اور آخر میں سکرپٹ پر بھروسہ کرلیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے کردار سے کبھی مطمئن نہیں ہوتے، وہ اپنے مشہور کرداروں کو بھی بہت کڑی نگاہ سے دیکھتے ہیں اس لیے اطمینان کا درجہ حاصل نہیں ہوپاتا۔
بلال کے مطابق انہوں نے ٹی وی میں اپنی اس فلم سے زیادہ مشکل کردار کیے ہیں، ان کا یہ کردار بہت ہی سادہ ہے اور یہ انہیں ٹی وی سے آسان محسوس ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلال نے یہ بھی بتایا کہ فلم کی عکس بندی کے دوران انہیں ہدایت کار کی جانب سے کافی آزادی تھی اور کردار کی مناسبت سے انہوں نے مختلف حالات میں اپنے طور پر بھی کام کیا ہے۔
پاکستان میں ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ جن اداکاروں کے ڈرامے ٹی وی پر چل رہے ہوتے ہیں، ان کی فلم ہی سینیما میں پیش کی جاتی ہیں۔ اس ضمن میں بلال نے کہا کہ ہمارے ملک میں انٹرٹینمنٹ کا بنیادی ذریعہ ٹی وی ہی ہے اور ابھی تو تقریباً دو سال بعد سنیما کھلے ہیں، ایسے میں اس قسم کی رائے مناسب نہیں، اس لیے وہ اس پر توجہ نہیں دینا چاہتے۔
انہوں نے کہا کہ اس فلم سے انہیں امیدیں ہیں کہ اچھا ہی ہوگا۔
آخر میں بلال نے بتایا کہ سجل علی کے ساتھ یہ ان کا دوسرا پراجیکٹ ہے، اور سجل علی پاکستان کی بہترین اداکاراؤں میں سے ایک ہیں، ان کے ساتھ پانچ سال بعد کام کرنے کا موقع ملا ہے اس لیے لوگوں کی جانب سے پذیرائی بھی مل رہی ہے۔