’افغانستان پر طالبان کی حکومت (کنٹرول) کی وجہ سے چلغوزے کی قیمتوں پر اتنا اثر نہیں پڑا جتنا خیال کیا جاتا ہے۔ اس کی قیمتوں میں اضافے کے ذمہ دار تاجر خود ہیں جو مارکیٹ کو خراب کر کے قیمتیں کم کرنے کی وجہ بنے۔‘
یہ کہنا تھا بنوں کی ’آزاد منڈی‘ میں کاروبار کرنے والے ملک نیک عمل کا، جو چلغوزوں کی قیمتیں گرنے سے پریشان ہیں۔
جنوبی وزیرستان کے ملک نیک عمل 22 سال سے اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔
انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آزاد منڈی میں افغانستان، وزیرستان، گلگت اور چترال سے مال آتا ہے اور پھر یہاں سے پورے پاکستان اور چین سمیت دنیا بھر میں سپلائی کیا جاتا ہے۔‘
’یہ منڈی اصل میں وزیرستان کے چلغوزے کے لیے بنائی گئی تھی اور وہاں سے مال اسی منڈی میں لایا جاتا ہے۔‘
پاکستان کی وزارت صنعت و تجارت کے 2018 کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کا 90 فیصد سے زائد چلغوزہ جنوبی وزیرستان میں (سالانہ تقریباً پانچ ہزار میٹرک ٹن) پیدا ہوتا ہے۔
جنوبی وزیرستان میں شکئی سے انگور اڈہ تک پہاڑ چلغوزے کے درختوں سے بھرے پڑے ہیں اور یہاں 20 فیصد رقبے پر چلغوزے کے درخت ہیں۔
اسی طرح پورے پاکستان کے 20 فیصد جنگلات پر چلغوزے کے درخت ہیں جب کہ سب سے زیادہ یہ درخت خیبر پختونخوا، بلوچستان، گلگت، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور پنجاب میں مری کی پہاڑیوں میں واقع ہیں۔
چلغوزے کی فصل مارکیٹ میں آنے سے پہلے جن مراحل سے گزرتی ہے، اسی حوالے سے نیک عمل نے بتایا کہ ’چلغوزہ اتارنے کا پہلا مرحلہ گرم علاقوں میں 20 اگست سے جب کہ سرد علاقوں میں 28 اگست سے ستمبر تک چلتا ہے۔‘
’چترال اور چلاس کے کچھ علاقوں میں فصل اتارنے کا وقت اکتوبر تک بھی پہنچ جاتا ہے۔‘
جب فصل تیار ہو جاتی ہے تو ملک نیک عمل کے مطابق ان جنگلات کو ٹھیکے پر دے دیا جاتا ہے اور ٹھیکے دار ہزاروں مزدوروں کے ساتھ وزیرستان کے پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں۔
نیک عمل نے بتایا، ’ہر موسم میں 20 سے 30 ہزار مزدور چلغوزے کی فصل اتارنے کا کام کرتے ہیں۔ وہ درختوں پر چڑھ کر ہاتھ سے چلغوزوں کے کون اتارتے ہیں اور جہاں مشکل پیش آتی ہے وہاں لاٹھی کا استعمال ہوتا ہے۔‘
گاڑیوں میں بھرنے کا مرحلہ
ان کونوں کو بعد ازاں بوریوں میں ٹرک یا بڑی گاڑیوں پر لاد کر بنوں کی آزاد منڈی پہنچایا جاتا ہے۔
منڈی میں مال کو 10، 15 دن رکھا جاتا ہے جس کے بعد کون سے چلغوزہ نکالنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
کچھ دن رکھنے کے بعد کون ستمبر میں ایک موسمی ستارے کی مدد سے کھولا جاتا ہے۔
’رات کی سردی، اس ستارے اور دن کی دھوپ کی مدد سے کون جب کھل جاتا ہے ، تو اسے ایک چارپائی پر ڈال کر لاٹھی کی مدد سے مارا جاتا ہے یوں چلغوزے نیچے گرنے لگتے ہیں۔‘
بولی لگنے کا مرحلہ
چلغوزہ نکلنے کے بعد چین اور ملک بھر سے آنے والے تاجر یہاں بولی لگا کر چلغوزے خرید لیتے ہیں۔
خریدنے کے بعد کون کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جس میں ایک صرف مغز (بغیر چھلکے) اور ایک چھلکے سمیت مارکیٹ میں سپلائی کیا جاتا ہے۔
’بغیر چھلکے یعنی صرف مغز کو وسطیٰ ایشیا اور یورپ میں سپلائی کیا جاتا ہے جب کہ باقی خام مال زیادہ تر چین اور پاکستانی مارکیٹ میں سپلائی ہو جاتا ہے۔
قیمتوں میں کمی کی وجہ کیا ہے؟
ملک نیک عمل نے بتایا کہ ’سیزن میں خراب فصل کی وجہ سے چلغوزہ کم ہوتا ہے اور نتیجتاً قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اس کے برعکس اچھی فصل کی وجہ سے مال زیادہ ہو جائے تو قیمت گر جاتی ہے۔‘
’ابھی مارکیٹ میں چلغوزہ زیادہ پڑا ہے اسی وجہ سے قیمتیں کم ہیں۔‘
تاہم ملک نیک عمل کے مطابق قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی ایک بڑی وجہ ’ہمارے اپنے تاجر ہیں کیونکہ جب وہ چین جا کر آرڈر لیتے ہیں تو مثال کے طور پر وہ چار ہزار فی کلو ریٹ دیتے ہیں لیکن جب سیمپل وہاں پہنچ جاتا ہے تو یہاں پاکستانی مارکیٹ میں ریٹ گر جاتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اب جو ریٹ چین میں دیا جاتا ہے اصل ریٹ وہ نہیں ہوتا کیونکہ یہاں ریٹ کم ہوتا ہے لیکن چین میں زیادہ ریٹ دیا جاتا ہے اور جب چین کو سپلائی کی جاتی ہے، تو یہاں ریٹ کم ہوجاتا ہے تو پھر چین والے سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ریٹ کم ہو گیا ہے تو وہ مال کم خریدتے ہیں۔‘
ان کے مطابق فروخت ہونے سے رہ جانے والا چلغوزہ خراب ہو جاتا ہے کیونکہ اس میں نمی کم ہوجاتی ہے اور وزن بھی کم ہو جاتا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’پہاڑوں پر بارش سے کون کو طاقت ملتی ہے اور فصل اچھی ہو جاتی ہے لیکن دھوپ سے اس کو بیماری لگتی ہے، دانہ چھوٹا پڑ جاتا ہے اور خراب ہوجاتا ہے۔‘
ملک نیک عمل کے مطابق پاکستان کا چلغوزہ چین میں زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے علاوہ چلغوزہ یورپ، جنوبی امریکہ، یورپ اور ایشیا میں پیدا ہوتا ہے اور اس کا استعمال ہزاروں سال سے چلا آ رہا ہے۔
پوری دنیا میں چلغوزے کی درختوں کی تقریباً 20 اقسام ہیں اور 2018 میں پوری دنیا میں 22 ہزار میٹرک ٹن سے زیادہ چلغوزہ پیدا ہوا تھا جس میں سے 39 فیصد چین میں پیدا ہوا۔