افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے آج دیے گئے بیان کے مطابق حکومت نے سرکاری ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنا شروع کر دی ہیں۔
اگست کے وسط میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں مالی بحران نے جنم لیا تھا جس کے باعث سرکاری ملازمین کو کئی ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی جا رہی تھیں۔
ملک میں زیادہ تر سرکاری ملازمین ابھی تک کام پر واپس نہیں آئے ہیں جب کہ دیگر بہت سے ملازمین کو طالبان کے اقتدار پر کنٹرول سے پہلے ہی کئی مہینوں سے تنخواہیں نہیں دی گئی تھیں جن میں خاص طور پر دیہی ملازمین شامل تھے۔
طالبان کی وزارت خزانہ کے ترجمان احمد ولی حقمل نے ہفتے کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ’ہم آج سے تنخواہوں کی ادائیگی شروع کرنے جا رہے ہیں۔ ہم پہلے تین ماہ کی تنخواہیں ادا کریں گے۔‘
حقمل نے کہا کہ تنخواہیں 23 اگست سے شروع ہونے والی مدت کے لیے ادا کی جائیں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ کچھ سرکاری ملازمین کو طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے کے مہینوں کی رکی ہوئی تنخواہیں بھی ادا کی جائیں گی۔
یہ ادائیگی ملک کے بینکنگ سسٹم کے ذریعے کی جائے گی جس کے بارے میں حقمل نے کہا کہ یہ نظام سابق حکومت کے خاتمے کے بعد ’مفلوج‘ نہیں ہوا تھا۔
ترجمان نے کہا کہ بینکنگ سیکٹر کو فعال طور پر کام کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔
دوسری جانب معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمین اب بھی اپنی پوری تنخواہیں حاصل کرنے سے قاصر رہیں گے۔
اگست کے بعد سے افغانستان کا بینکنگ سیکٹر تباہ ہو گیا ہے اور جن افراد کی بینک میں رقم موجود ہے وہ اپنے فنڈز تک رسائی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں کیونکہ ہفتہ وار دو سو سے چار سو ڈالر سے زیادہ رقم نکالنے کی اجازت نہیں ہے۔
واشنگٹن کی جانب سے طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں موجود تقریباً 10 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کیے جانے اور ورلڈ بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے افغانستان کی امداد معطل ہونے کے بعد ملک کا معاشی بحران سنگین ہو گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکہ گذشتہ 20 سالوں کے دوران افغانستان میں واشنگٹن کی حمایت یافتہ حکومت کے تحت عوامی اخراجات کا 75 فیصد سے زیادہ حصہ فراہم کر رہا تھا۔
تیزی سے بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال سے مقامی کرنسی کے گرنے اور قیمتیں بڑھنے کے بعد افغان شہری خوراک اور دیگر ضروری اشیا خریدنے کے لیے اپنا گھریلو سامان بیچنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
حکومت کے محکمہ محصولات کے ترجمان معراج محمد معراج نے کہا کہ حکام گذشتہ ڈھائی ماہ میں 26 ارب افغانی (تقریباً 277 ملین ڈالر) کی آمدنی حاصل کرنے کے بعد تنخواہیں ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔
معراج محمد معراج نے پریس کانفرنس میں کہا: ’معیشت کا صرف 20 سے 25 فیصد حصہ کام کر رہا ہے اور فی الحال تمام شعبے فعال نہیں ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ حکام غریب لوگوں اور یتیموں کے لیے امدادی منصوبوں کو فنڈ فراہم کرنے کے لیے ایک نیا اسلامی ٹیکس متعارف کرائیں گے۔