چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن نے منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک سال کے لیے تین ایڈیشنل ججز ارباب محمد طاہر، بیرسٹر اعجاز اسحاق خان اور ثمن رفعت امتیاز کو تعینات کرنے کی سفارش کرکے نام پارلیمانی کمیٹی کو بھجوا دیے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس سے قبل بھی خاتون ایڈیشنل جج لبنیٰ سلیم کو ایک سال کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ سال بعد ان کی تعیناتی کنفرم نہ ہونے پر ان کی بطور جج مدت ختم ہو گئی، لیکن اب دوبارہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے لیے تین ایڈیشنل ججز کے نام منظور کیے گئے ہیں جن میں ایک خاتون ثمن رفعت امتیاز بھی شامل ہیں۔
ثمن رفعت امتیاز کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ سپریم کورٹ کی وکیل بھی ہیں۔ وہ 2004 سے کراچی میں وکالت کر رہی ہیں جبکہ امتیاز لا کے نام سے انہوں نے اپنی لا فرم بھی بنائی ہوئی ہے۔
اے لیولز کے بعد ثمن نے دبئی میں امریکن یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد قانون کی ڈگری رچمنڈ یونیورسٹی ورجینیا سے حاصل کی تھی۔
ثمن رفعت 2007 سے بطور وکیل ہائی کورٹ وکالت کر رہی ہیں جبکہ 2019 میں وہ سپریم کورٹ کی وکیل کے طور پر بھی رجسٹرڈ ہو گئی تھیں۔
انہوں نے لا جرنل کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ جب وہ دبئی میں بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم حاصل کر رہیں تھیں تو اس وقت ان کا ایک کورس بزنس لا بھی تھا جس کو پڑھنے کے بعد انہوں نے سوچا کہ آگے اسی شعبے میں جانا ہے۔
ثمن رفعت نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا تھا کہ قانون کی کتابوں میں جو پڑھایا جاتا ہے جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو الگ ہی دنیا ملتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ابھی بھی وکالت کے شعبے میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔
ثمن رفعت نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ وہ بے نظیر بھٹو کو آئیڈلائز کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ تقریباً 12 سال کی تھیں جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں، ’ایک خاتون کو اتنے بڑے عہدے پر دیکھنا یقیناً بہت مثبت اور متاثرکن تھا۔‘
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی پہلی خاتون جج کا تعلق بھی سندھ بار سے تھا جبکہ دوسری خاتون نامزد جج ثمن رفعت بھی سندھ بار کونسل سے ہیں۔
اسلام آباد بار کے تحفظات
انڈپینڈنٹ اردو نے اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر زاہد راجا سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ خواتین وکلا کے آگے آنے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے حق میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ثمن امتیاز سول لا کی ماہر ہیں اور امید ہے خوبصورت اضافہ ثابت ہوں گی۔‘
’ہمارے کچھ تحفظات بھی ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے لیے ججز کی تعیناتی میں بار کونسلز کی رائے نہیں لی جا رہی جس کا نتیجہ ماضی قریب میں دیکھ چکے ہیں جب تین ایڈہاک ججز تعینات ہوئے اور تینوں کو ڈیڑھ سال بعد مستقل نہیں کیا گیا تو اس پر سوال اٹھتے ہیں کہ ان تین ایڈہاک ججز بشمول لبنیٰ سلیم نے جو ڈیڑھ سال میں فیصلے کیے تو پھر ان کی کیا اہمیت رہ گئی اگر وہ جج رہنے کے قابل نہیں تھے؟‘
انہوں نے کہا کہ یہ تکنیکی معاملات ہیں جس پہ بار کونسلز کی رائے بہت ضروری ہے۔
اسلام آباد بار کے صدر فرید کیف نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’کیا اسلام آباد میں قابل خواتین وکلا نہیں ہیں جو دوسری خاتون جج بھی کراچی سے لانی پڑیں؟‘
انہوں نے کہا کہ ہم انہیں یقیناً ویلکم کہتے ہیں لیکن یہ اسلام آباد بار کے سات ہزار وکلا کی حق تلفی ہے۔
’سابق جج لبنیٰ سلیم صاحبہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں خود کو مستقل جج بننے کے لیے اہل ثابت نہیں کر سکیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ تعیناتیوں کے فیصلے اقربہ پروری سے ہوئے تھے۔‘
فرید کیف کے مطابق: ’ہم چاہتے ہیں کہ بینچ و بار کے درمیان اتفاق رہے تاکہ مستقبل میں تعیناتیاں میرٹ پر ہوں۔