پشاور پولیس نے جمعرات کو بتایا کہ بدھ کو دو پولیس اہلکاروں کے قتل کے واقعے میں دہشت گرد تنظیم داعش کے ملوث ہونے کے کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔
پولیس کی جاری پریس ریلیز کے مطابق شہر کے کینٹ ڈویژن میں پولیس تھانہ تاتارا کی حدود میں سات اشتہاری ملزمان کے خلاف کارروائی کے دوران فائرنگ سے دو پولیس اہلکار محمد ریاض اور جعفر علی جان سے چلے گئے تھے۔
جس مکان میں، پولیس حکام کے مطابق، آپریشن کیا گیا، وہاں کے رہائشیوں نے پولیس پر مقدمہ درج کرنے کے لیے پشاور ہائی کورٹ سے رابطہ کیا ہے۔
پولیس کی پریس ریلیز میں مزید بتایا گیا کہ مقتول پولیس اہلکاروں کو سرکاری اعزاز کے سپر د خاک کر دیا گیا۔
نماز جنازہ میں انسپکٹر جنرل آف پولیس معظم جاہ انصاری سمیت اعلٰیٰ پولیس افسران نے شرکت کی۔
معظم جاہ نے میڈیا کو بتایا کہ حیات آباد میں اشتہاری مجرموں کے خلاف پولیس کارروائی میں سات افراد کو بمعہ ممنوعہ اسلحہ گرفتار کیا گیا اور ان سے تفتیش جاری ہے۔
داعش نے ذمہ داری قبول کرنے کی پریس ریلیز میڈیا کو جاری کرنے کے علاوہ اپنے انسٹا گرام چینل پر بھی شیئر کی ہے۔
تاہم پشاور پولیس کے سربراہ (سی سی پی او) عباس احسن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں بھی یہ اطلاع ملی ہے کہ داعش نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی لیکن ’ہماری تفتیش (کے مطابق) اس واقعے میں داعش ملوث نہیں۔
’جن اشہاری مجرمان کی بات ہو رہی ہے، ابتدا سے وہ بھی داعش کے ساتھ نہیں بلکہ مقامی کریمنل گینگ کے بندے تھے۔
’اور جو ملزم پکڑا گیا ابھی تک تفتیش میں ان کا داعش سے کوئی تعلق واضح نہیں ہوا۔‘
احسن عباس سے جب پوچھا گیا کہ چھاپے کے دوران موجود اشہتاری مجرمان کا مذکورہ گھر والوں کے ساتھ کوئی تعلق تھا؟ تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک اشتہاری مجرمان کا فیملی کے ساتھ تعلق سامنے نہیں آیا۔
انھوں نے کہا کہ ملزم حمزہ نے پولیس پارٹی پر سیدھا فائر کیا جس سے ان کی ہلاکت ہوئی۔
میڈیا نے جب ان سے پوچھا کہ یہ گھر تاتارا پولیس سٹیشن کے حدود میں تھا تو پشاور شرقی پولیس سٹیشن کے اہلکار کیوں چھاپہ مار رہے تھے؟
اس پر ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک مشترکہ پولیس آپریشن تھا جس میں تاتارا پولیس سٹیشن کے ایڈیشنل ایس ایچ او بھی موقعے پر موجود تھے۔
’یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں کیونکہ یہ سب پشاور کی پولیس ہے اور کسی بھی آپریشن میں حصہ لے سکتا ہے۔‘
پشاور ہائی کورٹ میں درخواست
ملزم حمزہ کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے ان کے ڈاکٹر معظم احمد نے دعویٰ کیا کہ حمزہ نے ’اپنے دفاع‘ میں پولیس پر فائرنگ کی کیونکہ ڈاکٹر معظم کے بقول پولیس اہلکاروں نے شال اوڑھی ہوئی تھی اور وہ ان کے بھائی کو ’اغوا کرنے کی کوشش کر رہے تھے ‘۔
حمزہ کے والد حسین احمد خان نے پشاور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ پولیس نے غیر قانونی طریقے سے گھر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے بغیر کسی گرفتاری وارنٹ کے ان کے گھر پر چھاپہ مارا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حسین احمد خان نے عدالت میں دائر پٹیشن (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے ) میں لکھا کہ 23نومبر کی رات تقریباً 10 بج کر 45منٹ پر ان کی گھر کی گھنٹی بجی اور دروازہ دیکھنے کے لیے ان کا بیٹا باہر چلا گیا ۔
’جب حمزہ نے دروازے پر پوچھا تو انہیں باہر سے بتایا گیا کہ پیزا ڈیلوری والا آیا ہے اور انہیں نے ان کا موبائل نمبر بھی بتایا۔
’اس پر حمزہ نے دروازہ کھول دیا اور دروازہ کھولتے ہی وہ لوگ زبردستی گھر میں داخل ہو کر میرے بیٹے کو اغوا کرنے کی کوشش کرنے لگے۔‘
درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ چونکہ حمزہ کو گھر میں زبردستی داخل ہونے والے لوگ اغوا کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو ان کے بیٹے نے سیلف ڈیفنس میں اپنے لائسنس یافتہ پستول سے ان پر فائرنگ کھول دی۔
حسین احمد نے اپنی درخواست میں مزید کہا کہ انہوں نے مدد کے لیے پولیس کو بلایا لیکن پولیس اہلکاروں نے آ کر مدد کرنے کی بجائے ان کے خاندان کے تمام مردوں کو زدو کوب کیا۔
درخواست کے مطابق، ’پولیس نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور میرے خاندان کے ارکان کو مارا پیٹا۔ بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ جو لوگ میرے بیٹے کو اغوا کی کوشش کر رہے تھے وہ پولیس اہلکار تھے جنھوں نے غیرقانونی طریقے سے خود کو ڈیلوری کا بندہ ظاہر کیا تھا۔‘
درخواست میں یہ بھی لکھا گیا کہ ان لوگوں نے جس شخص سے ڈیلوری بائیک چھینی، اس متاثرہ شخص نے بھی موٹر بائیک چھیننے کا مقدمہ تاتارا پولیس سٹیشن میں درج کروایا ہے اور اس واقعے میں ’یہی پولیس اہلکار ملوث تھے جو بعد میں ہمارے گھر آئے تھے۔‘
پولیس اہلکاروں کے قتل کیس کے مرکزی ملزم حمزہ کے بھائی ریاض حسین نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا تعلق ضلع بنوں سے ہے اور ان کے گاؤں میں ذاتی دشمنی چل رہی ہے۔
’یہی وجہ ہے کہ حمزہ کو اغوا کرنے کے دوران سیلف ڈیفنس میں فائر کرنے کی ضرورت پیش آئی کیونکہ حمزہ کو ا غوا کرنے کی دو مرتبہ پہلے بھی کوشش کی گئی تھی۔‘
حمزہ کے بھائی کے مطابق وہ یونیورسٹی آف لندن سے لا کی ڈگری کر رہے ہیں جبکہ ان کا بڑے بھائی خیبر میڈیکل یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔
پاکستان میں نیو یارک ٹائمز کے لیے خیبر پختونخوا اور قبائلی اضلاع کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی احسان ٹیپو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’داعش بنیادی طور حریف جہادی گروپوں سے نئے بھرتی کے لیے راغب کرنے کی شدت سے کوشش رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس قسم کے ’جعلی ‘ حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا، ’ٹی ٹی پی کی طرف سے جنگ بندی کے اعلان کے بعد جعلی حملوں کا دعویٰ کر کے داعش اس خلا کو پر کرنے کی کوشش رہی ہے۔
’داعش ٹی ٹی پی کے ناراض ارکان کو بھی راغب کر رہی ہے جنھوں نے اپنی قیادت کی پاکستانی حکومت کے ساتھ جنگ بندی پر اعتراض کیا۔‘
ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا میڈیا پر اس قسم کے دعوؤں کو چلانا چاہیے جس کی تصدیق ممکن نہیں تو ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے دعوؤں کی تصدیق سرکاری اور غیر سرکاری دونوں ذرائع سے کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔
’صرف ایک ذریعہ سے معلومات پر انحصار کرنے سے اکثر جعلی خبریں جنم لیتی ہیں۔‘