نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (نادرا )نے جمعرات کو عوام کے بائیو میٹرک ڈیٹا ہیک ہونے سے متعلق وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے ) کے بیان کی تردید کر دی۔
نادرا کے پبلک انفارمیشن آفیسرفائق علی چاچڑنے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ شہریوں کا بائیو میٹرک ڈیٹا مکمل طور محفوظ ہے۔
واضح رہے کہ ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر طارق پرویز نے آج قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کو بتایا تھا کہ ’نادرا کا ڈیٹا ہیک ہونے کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہوا ۔ بائیو میٹرک ڈیٹا ہیک ہونے سے ہیکرز باآسانی فراڈ کرتے ہیں۔‘
فائق علی کا کہنا تھا کہ بائیو میٹرک ڈیٹا لیک ہونے سے متعلق طارق پرویز ملک کا قائمہ کمیٹی میں دیا گیا بیان حقائق کے منافی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نادرا بذات خود ایک آئی ٹی ادارہ ہے اور ایسا کوئی بھی ڈیٹا لیک نہیں ہوا ۔
’نادرا کا ڈیٹا انٹرنیٹ پر موجود ہی نہیں اور ویب سائٹ پر بھی اس طرح کا کوئی مواد نہیں کہ ہیک ہو سکے کیوں کہ ڈیٹا وہاں ہیک ہوتا ہے جہاں انٹرنیٹ ہو۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے ان سے سوال کیا کہ کیا نادراپر ہیکنگ حملے ہوئے تو انہوں وضاحت کی کہ نادرا کا ڈیٹا انٹرنیٹ پر نہیں بلکہ انٹرا نیٹ پر ہے، یہ آفس ڈومین ہوتا ہے اس پر کوئی ہیکر حملہ آورہو بھی نہیں سکتا۔
انہوں نے ایک اور سوال کہ کیا کسی ادارے نے ڈیٹا لیک ہونے سے متعلق نادرا کو شکایت کی ، جواب دیا کہ ایسی کوئی شکایت نہیں ملی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی اے نے بھی یہ بیان دینے سے پہلے آگاہ نہیں کیا ،نہ وضاحت طلب کی۔
بعد ازاں ایف آئی اے نے ایک بیان جاری کیا اور کہا کہ اس نے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ڈیٹا ہیکنگ کی بات نہیں کی اور ان کے بیان کو غلط پیش کیا گیا۔
ایف آئی اے نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ وہ واضح طور پر اس خبر کی تردید کرتا ہے کیونکہ یہ حقائق کے منافی ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی کے اجلاس میں آج سوشل میڈیا قوانین 2021 کے علاوہ ہیکنگ کے معاملے پر گفتگو ہوئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس موقعے پر ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے نے مزید بتایا کہ ’مالی فراڈ کے مقدمے آتے ہیں لیکن جب کسی کو پکڑتے ہیں تو کوئی بوڑھا شخص یا خاتون ہوتی ہے۔‘
اس پر چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) عامر باجوہ نے کہا کہ ’ادارے نے کسی بھی موبائل فون کمپنی کو ڈور ٹو ڈور سم فروخت کرنے اجازت نہیں دی بلکہ غیر قانونی سموں کی فروخت میں ایک سال میں 600 فیصد کمی آئی ہے۔‘
چیئرمین پی ٹی اے نے مزید بتایا کہ پاکستان میں آنکھوں کی پتلیوں کی سکینگ کا ڈیٹا بیس موجود نہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ ’یہ جو بائیو میٹرک ڈیٹا کے ہیک ہونے والی بات ہے اس میں غیر قانونی طریقے سے لوگوں کے انگوٹھوں کے نشان لیے جاتے ہیں اس لیے اب انگوٹھے کے نشان والے معاملے کو ختم کرنے کے لیے دو آپریٹرز کو ایک سال میں 10 کروڑ اور پانچ کروڑ روپے جرمانہ کیا ہے، نہ صرف یہ بلکہ پانچ لاکھ 36 ہزار سمز کو بلاک بھی کیا گیا ہے۔‘