پاکستان کے دو صحافیوں کا ازدواجی مسئلہ اس وقت سوشل میڈیا پر زیر بحث آیا جب صحافی احمد نورانی کی اہلیہ کو لاہور میں ایک حادثہ پیش آیا اور اسے احمد نورانی کی سابقہ خبر سے جوڑ دیا گیا۔
اس واقعے پر احمد نورانی نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’کچھ میڈیا کے افراد اور دوست لاہور میں پیش آنے والے واقع کو میری خبر کے ساتھ جوڑ رہے ہیں مگر اس میں کوئی حقیقت نہیں۔‘
Many media persons and friends are connecting an incident of attack in Lahore with me and my recent story about Justice Saqib Nisar audio. This is incorrect.
— Ahmad Noorani (@Ahmad_Noorani) November 25, 2021
I have stated many times & I reiterate that a high-powered judicial commission shud probe all allegations ag Saqib Nisar.
اس حوالے سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پر 27 نومبر کو احمد نورانی سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا ’عنبرین اب میری اہلیہ نہیں ہیں۔‘
انہوں نے اپنا یہ مؤقف پیش کیا کہ ’پہلے عنبرین فاطمہ کی طرف طلاق کے تحریری مطالبات اور بعد میں اس حوالے سے تقریباً ہر چند گھنٹے کے وقفے سے طلاق کے لیے مسلسل تحریری اصرار پر اس سال کے اوائل میں ہمارے درمیان طلاق ہو گئی تھی۔‘
احمد نورانی سے جب سوال کیا گیا کہ کیا آپ کی طلاق دستاویزی ہے تو ان کا کہنا تھا ’بالکل ہماری تحریری طور پر طلاق ہے اور نادرا میں رجسٹرڈ ہے۔‘
بعد ازاں احمد نورانی نے 30 نومبر کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’میں نے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر نہ کچھ لکھا نہ لکھوں گا۔ میں نے اس حوالے سے کبھی کسی کوفون نہیں کیا، ہاں صحافیوں نے خود کالز کر کےسوالات پوچھے تو جواب ضرور دیے۔ آئندہ بھی کوئی فون یا ای میل پر پوچھےگا تو ضرور جواب دوں گا کیونکہ میں خود کو جوابدہ سمجھتاہوں۔‘
پچھلے چند دن میں کچھ یوٹیوبرز کے ذریعے میری ذاتی کو لے کر سنگین الزامات لگائے گئے اور کیچڑ اچھالا گیا، مجھے کافی وقت سے اس طرح کی کیمپئن کا علم تھا، یہ سلسلہ اب پھیلتا جائے گا اور آپکو مسلسل نئی اقساط ملتی رہیں گی۔ میں دن رات محنت سے اپنا کام کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔
— Ahmad Noorani (@Ahmad_Noorani) November 30, 2021
1/3
30 نومبر کو ہی عنبرین فاطمہ نے ٹویٹ میں ایک دستاویز شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ ’کبھی نہ تین حرف بولے نہ کوئی پیپر بھیجا، نکاح میں ہونے کےباوجود کہا گیا کہ مجھےطلاق دے دی گئی ہےاور باقاعدہ یہ چیز سٹیبلش کی گئی ہے۔ کسی کو بھی بغیرطلاق پیپر دکھائے،اس ذلت کے بعد اس رشتے میں رہنا میرے لیے ناممکن تھا اس لیے میں ’خلع‘ کادعوی دائر کرنے پہ مجبور ہوگئی اور دعوی دائر کر دیا۔‘
کبھی نہ3حرف بولے نہ کوئی پیپر بھیجا،
— Ambreen Fatima (@AmbreenFatimaAA) November 30, 2021
نکاح میں ہونے کےباوجود کہا گیا کہ مجھےطلاق دے دی گئی ہےاور باقاعدہ یہ چیز اسٹیبلش کی گئی ہےکسی کو بھی بغیرطلاق پیپر دکھائے،اس ذلت کے بعد اس رشتے میں رہنا میرے لیے ناممکن تھا اسلیے میں "خلع" کادعوی دائر کرنے پہ مجبور ہوگئی اور دعوی دائر کردیا. pic.twitter.com/CnT2zJv0jC
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے عنبرین فاطمہ نے کہا کہ آج تک وہ احمد نورانی کی اہلیہ ہیں اور انہیں احمد نورانی نے کبھی طلاق نہیں دی۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی آپس میں بات نہیں ہوتی مگر وہ اب بھی احمد نورانی کے نکاح میں ہیں۔
عنبرین فاطمہ کا کہنا تھا کہ ’ہمارے اختلافات رہے ہیں مگر میں نے کبھی سوشل میڈیا پر کوئی بات نہیں لکھی مگر اس لیے کلئیر کرنا چاہتی ہوں کیوں کہ میں اب تک ان کے نکاح میں ہوں۔‘
طلاق دینے کے اصرار کی بات پر ان کا کہنا تھا ’احمد نورانی نہ رابطے میں ہیں نہ انہوں نے مجھے بیوی والے حقوق دیے اس لیے تنگ آکر میں نے انہیں لکھا کہ مجھے عزت سے رکھیں ورنہ طلاق دے دیں۔‘
عنبرین فاطمہ کا کہنا تھا کہ ’اگر احمد نورانی نے طلاق دی ہے تو اس کی دستاویز پیش کریں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
احمد نورانی کے بیان جس میں انہوں نے کہا کہ ’ہماری طلاق تحریری ہوئی اور نادرا میں رجسٹرڈ ہے‘ اس پر جب عنبرین فاطمہ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ میں نادرا ریکارڈ میں جا کر خود تصدیق کر دیتی ہوں۔
عنبرین فاطمہ کی جانب سے فراہم کیے گئے نادرا ریکارڈ کے مطابق وہ ابھی بھی احمد نورانی کی اہلیہ ہیں جب کہ انڈپینڈنٹ اردو نے عنبرین فاطمہ کی اجازت سے خود نادرا سے آزادانہ طور پر ڈیٹا چیک کیا جس میں وہ ابھی بھی احمد نورانی کی اہلیہ کے طور پر درج ہیں۔
عنبرین فاطمہ کے پیش کردہ ریکارڈ کے مطابق وہ محمد احمد نورانی ولد بشیر احمد سعیدی کی زوجہ ہیں اور احمد نورانی کے آخری شناختی کارڈ جو کہ 2020 میں بنایا گیا اس ریکارڈ کے مطابق عنبرین فاطمہ ان کی اہلیہ ہیں اور پہلی اہلیہ کا نام بھی اس میں درج ہے جن کا نام خبر میں نہیں دیا جا رہا۔
عنبرین فاطمہ کی جانب سے پیش کردہ ریکارڈ کے مطابق 30جون2018 کو یہ شادی ہوئی تھی اور انہوں نے بتایا یہ ریکارڈ انہوں نے 1777 نادرا ہیلپ لائن کے ذریعے حاصل کی۔