بھارت میں زرعی منڈیوں کو ضابطے کی پابندیوں سے آزاد کرنے کی خاطر بنائے گئے قوانین کی تنسیخ کے نتیجے میں ماہرین معیشت کے مطابق زرعی شعبہ نجی سرمایہ کاری سے محروم ہو جائے گا۔
بھارت کے زرعی شعبے کو نجی سرمایہ کاری کی سخت ضرورت ہے کیونکہ دوسری صورت میں حکومت کو کئی برس تک سبسڈیز دینی پڑیں گی جن کا بوجھ بجٹ پر پڑے گا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق وزیر اعظم نریندرمودی کی حکومت نے گذشتہ سال تین زرعی قوانین متعارف کروئے تھے جن کا مقصد زرعی منڈیوں کو کمپنیوں کے لیے کھولنا اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری لانا تھا۔
بھارتی کاشت کاروں نے ان قوانین کے خلاف ملک میں سب سے زیادہ طویل عرصے تک جاری رہنے والا احتجاج شروع کر دیا۔ کاشت کاروں کا کہنا تھا کہ زرعی اصلاحات کی وجہ نجی کارپوریشنوں کو ان کے استحصال کی اجازت مل جائے گی۔
بھارت کی گنجان آباد ریاست اترپردیش کے اگلے سال اوائل میں ہونے والے انتخابات کی اہمیت کے پیش نظر مودی حکومت نے نومبر میں نئے زرعی قوانین اس امید پر منسوخ کرنے پر اتفاق کر لیا تھا کہ اس طرح طاقتور کاشت کار لابی کے ساتھ ان کے تعلقات بہتر ہو جائیں گے جو ملک کی تقریباً ایک ارب 30 کروڑ کی آبادی میں سے نصف کی غذائی ضرورت کو پورا کرتی ہے اور 2.7 کھرب ڈالر کی معیشت میں اس کا حصہ 15 فیصد کے لگ بھگ ہے۔
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ کئی دہائیوں میں سب سے زیادہ طاقتور زرعی اصلاحات سے مودی حکومت کے پیچھے ہٹنے کے بعد اب بظاہر ضیاع میں کمی کے لیے فصلوں کی کٹائی کے بعد رسد کے کمزور نظام میں انتہائی ضروری بہتری لانے کا عمل رک جائے گا۔ فصلوں میں تنوع نہیں ہو گا اور نہ کاشت کاروں کی آمدن بڑھے گی۔
یہ اقدام زرعی شعبے کی بربادی کو کم کرنے، فصلوں کے تنوع کو فروغ دینے اور کسانوں کی آمدنی کو بڑھانے کے لیے کٹائی کے بعد کی سپلائے چین کے انتہائی ضروری اپ گریڈ کو مسترد کرتا ہے۔
دہلی میں قائم آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے نائب صدر اور سینیئر ماہر معیشت گوتم چکرمانے کے بقول ’یہ زرعت کے لیے اچھا نہیں ہے۔ یہ بھارت کے لیے اچھا نہیں ہے۔ زراعت میں مارکیٹ سے جڑے نظام کو زیادہ فعال بنانے لیے دی گئی تمام ترغیبات واپس ہو گئی ہیں۔‘
نئے زرعی قوانین پر حکومتی یوٹرن کے بعد کاشت کاروں کا بنیادی فصلوں کی کم از کم قیمت کے نظام کے خاتمے کا خوف ضرور کم ہوا ہے۔ کاشت کار ان فصلوں کو غذائی شعبے میں خود کفالت کی ضمانت قرار دیتے ہیں۔ کاشت کاروں کی تحریک کے حامی اور زرعی پالیسی کے ماہر دیوندرشرما کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو کاشت کاروں کے اس مؤقف میں وزن کا احساس ہو گیا ہے کہ زرعی شعبے کو کھولنے سے وہ بڑی کمپنیوں کے رحم و کرم پر ہوں گے جب کہ زرعی اجناس کی قیمتوں اور ان کی آمدن میں کمی ہو گی۔
تاہم چکرمانے کا کہنا تھا کہ سال بھر جاری رہنے والے کاشت کاروں کے احتجاج کا مطلب یہ بھی ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت کم از کم 25 سال تک اب اس طرح کی زرعی اصلاحات لانے کی کوشش نہیں کرے گی۔
انہوں نے خبردار کیا کہ نجی سرمایہ کاری نہ ہونے اور نظام کی خامیوں کی وجہ سے ضیاع ہوتا رہے گا اور خوراک خراب ہوتی رہے گی۔
بڑے پیمانے پر ضیاع
عالمی انڈیکس کے مطابق بھارت غذائی قلت کے معاملے میں 116 ملکوں کی درجہ بندی میں 101 ویں نمبر پر ہے۔ ملک میں بچوں کی اموات میں سے 68 فیصد غذائی قلت کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ مختلف جائزوں کے مطابق اس صورت حال کے باوجود بھارت میں ہر سال چھ کروڑ 70 لاکھ ٹن غلہ ضائع ہو جاتا ہے جس کی مالیت 12.25 ارب ڈالر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ضائع ہونے والی اس خوراک کی مقدار بڑی معیشتوں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے۔ کولڈ چین سٹوریج کی ناکافی سہولتیں، ریفریجریشن کی سہولت ساتھ ٹرکوں کی کمی اور خوراک کو محفوظ بنانے کی سہولتوں کا فقدان اس کے ضیاع کا بڑا سبب ہیں۔
قیمتوں میں اتارچڑھاؤ
کٹائی کے بعد زرعی پیداوار کو سنبھالنے کا کمزور نظام بھی بھارت میں جلد خراب ہونے والی پیداوار کی قیمتوں میں اتارچڑھاؤ کا سبب بنتا ہے۔ صرف تین ماہ پہلے کاشت کاروں نے ٹماٹروں کی قیمتوں میں بڑی گراوٹ کے بعد انہیں سڑکوں پر پھینک دیا لیکن اب صارفین قیمتوں میں تیزی سے اضافے کے بعد ایک کلوگرام ٹماٹر سو روپے میں خرید رہے ہیں۔ بھارتی صنعتی گروپ کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری (سی آئی آئی) کے مطابق نئے قوانین خوراک پروسیس کرنے والے شعبے کی بڑی ترقی میں مدد دے سکتے تھے۔
کاشت کاروں سے فصلیں خریدنے والے سرکاری ادارے فوڈ کارپوریشن آف انڈیا (ایف سی آئی) کا قرضہ 3.81 کھرب روپے کی ریکارڈ تک پہنچ گیا ہے جس سے پالیسی ساز پریشان ہیں جب کہ رواں سال کے دوران مارچ 2021 تک بھارت میں سبسڈی کی مد میں 5.25 کھرب روپے تک کا ریکارڈ اضافہ کیا گیا۔