خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پشتون تحفظ مومنٹ (پی ٹی ایم) کے بانی رکن ادریس پشتین کی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری سے بظاہر لگ رہا ہے کہ حکومت نے پی ٹی ایم کے ساتھ نمٹنے کے لیے قانونی جنگ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔
پی ٹی ایم پشاور کور کمیٹی کی رکن ثنا اعجاز نے جمعرات کو انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ادریس کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وہ منظور پشتین کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیے جاتے ہیں اور ان پر پہلے سے مخلتف مقدمے درج ہیں جس کی وجہ سے اب ان کو گرفتار کیا گیا۔
پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایک حالیہ پریس کانفرنس میں عندیہ دیا تھا کہ پی ٹی ایم کے ساتھ قانونی طریقے سے نمٹا جائے گا۔انہوں نے پی ٹی ایم پر بیرون ممالک سے روابط اور ان سے پیسے لینے کا الزام لگایا تھا۔
بعد ازاں پیش آنے والے واقعات سے ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت پی ٹی ایم کے کارکنوں کے ساتھ قانون کے دائرے میں رہ کر نمٹنا چاہتی ہے۔
حالیہ دنوں میں وزیرستان کی خڑ کمر چیک پوسٹ پر پی ٹی ایم اور سیکورٹی فورسز کے مابین ‘تصادم’ کے بعد پی ٹی ایم کے بانی رہنماؤں اور ارکان قومی اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جانا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہو سکتی ہے۔
ماضی میں پی ٹی ایم کے کارکنوں پر مبینہ طور پر ریاست کے خلاف لوگوں کو اکسانے اور ملکی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں کرنے پر مقدمے درج کیے گئے تھے۔
پی ٹی ایم کارکنوں کی قانونی گرفتاریوں کے بارے میں ثنا اعجاز نے کہا اچھی بات ہے کہ حکومت نے گرفتاریوں کے لیے قانونی طریقہ اپنایا لیکن قانون صرف حکومت کے لیے نہیں بلکہ پی ٹی ایم کارکنوں کو بھی قانون کے تحت درست طریقے سے سنا جائے۔
’اگر قانونی دفعات کے تحت گرفتاری ہوتی ہے تو گرفتار افراد کو بھی قانون کے اندر رہ کر اپنے دفاع کا حق ملنا چاہیے اور ان کے کیسز کو طول نہیں دینا چاہیے، جیسا کے کراچی میں پی ٹی ایم کے ایک رکن عالم زیب محسود کی کیس میں ہو رہا ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پر خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان شوکت یوسف زئی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان سے بات نہ ہو سکی۔
اب تک کتنے پی ٹی ایم کارکن قانونی دفعات کے تحت گرفتار ہیں؟
ثنا اعجاز نے بتایا کہ دو ارکان قومی اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ کے علاوہ کراچی میں عالم زیب محسود کو چند مہینے پہلے جبکہ حالیہ پشاور دھرنے سے قاضی طاہر اور حمید وزیر کو ایم پی او(مینٹیننٹس آف پبلک ارڈر) کے تحت گرفتار کیا گیا۔
ایم پی او کے تحت گرفتاری اُس وقت ہوتی ہے جب حکومت سمجھے کہ کسی شخص سے امن عامہ کو خطرہ ہے اور اس کی گرفتاری ضروری ہے۔
اس دفعہ کے تحت کسی بھی شخص کو زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک جیل بھیجا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے علاوہ ثنا اعجاز نے دعوی کیا کہ بنوں میں خڑ کمر چیک پوسٹ واقعے کے خلاف مظاہرے میں 22 افراد کو ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ رہا ہو چکے ہیں لیکن کچھ ابھی بھی جیلوں میں ہیں۔
’عدالتی فیصلے نافذ کرنا بہت اہم ہیں‘
پی ٹی ایم ورکرز کی قانونی طریقے سے گرفتاریوں کے حوالے سے تجزیہ کار طاہر خان نے بتایا کہ بعض اوقات حکومت قانون کو اس وقت استعمال کرتی ہے جب اسے اپنا فائدہ نظر آرہا ہو۔
انہوں نے اتفاق کیا کہ قانونی راستہ اختیار کرنا آیئنی طریقہ ہے چاہے وہ کسی جماعت یا گروپ کے خلاف ہو، لیکن بعد میں ان کیسز کو ثبوت کے ساتھ عدالت میں ثابت کرنا نہایت اہم ہے۔
ان کا کہنا تھا مخلتف موقعوں پر ایسا بھی ہو ا کہ جب ریاستی اداروں یا ریاست کے مبینہ مظالم کے خلاف کوئی اٹھ کھڑا ہوا تو حکومت حرکت میں آئی اور ان کو دبانے کے لیے قانونی راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کی۔
طاہر خان سے جب پوچھا گیا کہ کیا عدالتوں میں ملزموں کو فیئر ٹرائل کا موقع دیا جائے گا؟ تو انہوں نے اس معاملے کو عدلیہ، پولیس، انتظامیہ اور ججز کے لیے ایک امتحان قرار دیا۔
انہوں نے مزید کہا اہم بات یہ ہے کہ جب عدالت ایسے مقدموں کا فیصلہ سناتی ہے تو اس پر کس حد تک عمل ہوتا ہے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنس (لمز) کے شعبہ قانون کے اسسٹنٹ پروفیسر عماد انصاری نے بتایا کہ اظہار رائے کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین واضح ہیں، جس میں جلسے جلوس کرنا، شہریوں کے حقوق کے حوالے سے بیانات دینا حتٰی کہ ریاست کے خلاف بیان بازی شامل ہے۔
ان کا کہناتھا تاہم ریاست میں اس قسم کے اختلافات کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے، اظہار رائے پر وقتی طور پر اس وقت پابندی لگائی جا سکتی ہے جب قومی سلامتی کو خطرہ ہو۔
‘اس قسم کی پابندی عارضی، متناسب اور اُس وقت لگانی چاہیے جب اس کی شدید ضرورت محسوس کی جائے۔’
پی ٹی ایم کارکنوں کی ایم پی او کے تحت گرفتاریوں کے بارے میں انہوں نے کہا حکومت کو اس قانون کے تحت گرفتاریوں کے لیے مناسب وجہ بتانا ہوتا ہے، اتنا کہنا کافی نہیں کہ ‘قومی سلامتی’ کو خطرہ ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ عالمی قوانین کے تحت حکومت کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو بتایا جائے کہ اس قسم کے قوانین کا نفاذ کس مقصد کے لیے کیا گیا اور یہ کہ ان قوانین کا نفاذ کس طرح ریاست کی قومی سلامتی کو خطرے سے بچاسکتا ہے۔