کرکٹ کو اگر کاروباری نگاہ سے دیکھا جائے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان ہر مقابلہ ایک نیا ریکارڈ قائم کرتا ہے۔
دونوں ملکوں کےدرمیان باہمی کرکٹ سیریز نہ ہونے کی وجہ سے مقابلے صرف آئی سی سی ایونٹس تک محدود ہوگئے ہیں جس سے سالوں میں ہونے والا ہر مقابلہ اس ایونٹ کا سب سے کماؤ پوت ہوتا ہے اور ساری دنیا کی نظریں اس پر لگی ہوتی ہیں۔
کرکٹ کے شائقین تو دونوں ملکوں کو آپس میں کھیلتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن یہ ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا۔
کرکٹ کے شائقین کے لیے خوش خبری ہے کہ دونوں ممالک ایک بار پھر ممکنہ طور پر آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا فائنل کھیل سکتے ہیں کیونکہ آئی سی سی نے دوسری ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا جو شیڈول مرتب کیا ہے اس میں دونوں ملکوں کے لیے فائنل تک پہنچنے کے لئے آسان راستہ ہے۔
ٹیسٹ چیمپیئن شپ کیا ہے؟
آئی سی سی نے 2013 میں فیصلہ کیا تھا کہ چیمپیئنز ٹرافی ختم کرکے ٹیسٹ چیمپئن شپ شروع کی جائے جس میں دوسال کےعرصے میں ہر ٹیم کم ازکم 6 سیریز کھیلے گی جس میں دو سے تین ٹیسٹ تک ہوں لیکن ایشز کے پانچ ٹیسٹ ہوسکتے ہیں۔
آئی سی سی کے اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے میں وقت زیادہ لگنے کے باعث اسے 2019 میں شروع کیا گیا، جب دو سال میں ہرٹیم نے چھ سیریز کھیلیں۔
چیمپیئن شپ کا آغاز 2019 کے ایشز سے ہوا جو 2021 تک جاری رہا تاہم کرونا کی وجہ سے کئی سیریز منسوخ ہوگئیں لیکن چیمپیئن شپ کو وقت پر ہی ختم کردیا گیا۔
پوائنٹس ٹیبل پر ٹاپ کرنے والی دو ٹیمیں فائنل کھیلتی ہیں چونکہ نیوزی لینڈ سر فہرست تھا جب کہ بھارت دوسرے نمبر پراس لیے اس موسم گرما میں ساؤتھ ہیمپٹن میں دونوں ٹیموں کے درمیان فائنل کھیلا گیا جو نیوزی لینڈ نے جیت لیا اور پہلا چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کرلیا تھا۔
پاکستان نے پہلی چیمپیئن شپ میں چھٹی پوزیشن حاصل کی تھی۔
چیمپیئن شپ کا دوسرا دور
آئی سی سی نے 2021 سے 2023 تک دوسرا فیز ترتیب دیا ہے جس میں ہر ٹیم کو چھ سیریز دی گئی ہیں جو وہ مختلف ممالک کےساتھ کھیلیں گے تاہم ہر ملک ایک دوسرے کے خلاف نہیں کھیل سکے گا۔
سب سے زیادہ میچ انگلینڈ کھیلے گا جسے 22 میچ دیے گئے ہیں جب کہ آسٹریلیا 19 بھارت 18 جنوبی افریقہ 15 پاکستان 14 اوردفاعی چیمپیئن نیوزی لینڈ 13 میچز کھیلے گا۔
پاکستان نے اپنے لیے ایک ٹیسٹ کم کردیا تھا جب ویسٹ انڈیز کے خلاف گذشتہ اگست میں سیریز میں ایک ٹیسٹ کم کرکے دو ٹی ٹوئنٹی میچ کا اضافہ کردیا گیا تھا۔
اس چیمپیئن شپ میں ہر ٹیم کو اپنے ملک میں اور دوسرے ملک میں جاکر مساوی میچز کھیلنے ہونگے۔ اس بار پاکستان کی تین سیریز باہر اور تین ملک میں ہونگی۔ یہی صورتحال بھارت کی ہوگی۔
بھارت اور پاکستان کو کیا فائدہ ہوگا؟
پاکستان اور بھارت کی مشکل ٹیموں کے خلاف سیریز اپنے ہی ملک میں ہیں۔
پاکستان کی تین ہوم سیریز انگلینڈ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف ہیں جو اپنی سرزمین پر جیتنا آسان ہوگا۔
جب کہ اووے سیریز میں پاکستان ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش سے کھیل چکا ہے جس میں ویسٹ انڈیز سے برابر اور بنگلہ دیش سے جیت چکا ہے۔ اس طرح وہ 36 پوائنٹس حاصل کرچکا ہے اور سری لنکا کے ساتھ سیریز میں اس کے امکانات کافی روشن ہیں۔
ہوم سیریز میں تین بڑے ممالک کے خلاف پاکستان کو جو اپنے گراؤنڈ کا فائدہ حاصل ہوگا اس سے جیت یقینی ہے اگر کوئی بڑا مسئلہ نہ ہوا تو پاکستان پوائنٹس ٹیبل پر پہلی یا دوسری پوزیشن باآسانی حاصل کرسکتا ہے۔
اسی طرح بھارت کی بھی دو اہم سیریز اپنی سرزمین پر ہیں۔ ایک میں نیوزی لینڈ کو شکست دے چکا ہے جب کہ آسٹریلیا کے ساتھ سیریز باقی ہے۔
بھارت باہر انگلینڈ سے سیریز جیت چکا ہے جب کہ جنوبی افریقہ کے ساتھ اس مہینہ کے آخر میں سیریز شروع ہورہی ہے جس میں کمزور افریقن ٹیم سے بھارت کی جیت یقینی ہے۔ بھارت کی بقیہ دو سیریز سری لنکا اور بنگلہ دیش سے رسماً ہی ہوں گی کیونکہ دونوں ٹیمیں اس سے بظاہر کمزور ہیں۔
اگر بھارت کی ٹیم کی کارکردگی ایسی ہی رہتی ہے تو وہ پہلی یا دوسری پوزیشن آسانی سے حاصل کرلے گی۔ یہ اتفاق ہے کہ مضبوط ٹیموں کو بھارت اور پاکستان سے ان کی زمین پر ہی کرکٹ کھیلنا ہوگی جس کا فائدہ دونوں ممالک کو ہوگا۔
آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا آغاز بھارت کے انگلینڈ کے دورے سے ہوا ہے اور یہ مارچ 2023 تک جاری رہے گی۔
آئی سی سی نے فائنل کے لیے تاریخ اور جگہ کا ابھی اعلان نہیں کیا ہے تاہم اس بات کا امکان ہے کہ فائنل انگلینڈ میں ہی کھیلا جائےلیکن اس پر تمام ٹیموں کی رضامندی ضروری ہوگی اگر پاکستان اور بھارت فائنل میں پہنچتے ہیں تو ممکن ہے کہ فائنل دبئ میں کھیلا جائے۔
2019 کے ورلڈکپ میں پاکستان اور بھارت کے میچ نے دنیا بھر میں دیکھے جانے کا ورلڈ ریکارڈ بنایا تھا لیکن اگر ٹیسٹ چیمپئین شپکا فائنل دونوں ممالک نے کھیلا تو ایک نیا ریکارڈ قائم ہوسکتا ہے۔
سیاست کے میدان میں مخالفت نے جہاں دونوں پڑوسی ممالک کے ثقافتی رشتوں کو نقصان پہنچایا ہے وہیں کروڑوں عوام کو کرکٹ کی خوشیاں دینے سے بھی محروم کررکھا ہے اور کھیل کی دنیا کو آباد کرنے کے لیے دونوں ملکوں کی ٹیموں کو آئی سی سی کے ٹورنامنٹس کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
کھیل انسان کو خوشیاں اور سکھ کے لمحات فراہم کرتا ہے صحتمندانہ مسابقت کی فضا اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی جستجو پیدا کرتا ہے لیکن سرحد کے دونوں طرف نفرتوں کی دیوار نے کرکٹ کو بھی محدود اور دوسروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔
اس کے باوجود دونوں ملکوں کے عوام کرکٹ کے میدان میں ایک دوسرے کو نبرد آزما دیکھنا چاہتے ہیں۔
شاید آئی سی سی چیمپیئن شپ کا فائنل اس کا سبب بن جائے اور نفرت کے صحرا میں جہاں پانی کا آسرا نہیں کرکٹ کی کا کھیل اس کو نخلستان بنا دے۔