بچوں کے لیے وقف اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کی ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ چند برسوں میں دنیا بھر میں ساڑھے 11 کروڑ لڑکوں کی شادی کم عمری میں ہی کردی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق یہ رواج جمہوریہ وسطیٰ افریقہ میں سب سے زیادہ ہے، اس کے بعد نکرا گوا اور مڈغاسکرکا نمبر آتا ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اس تعداد کا مطلب یہ کہ ہرپانچ میں ایک ( دو کروڑ 30 لاکھ) لڑکا 15 برس کی عمرسے پہلے دلہا بن چکا تھا۔
یونیسف نے 82 ملکوں سے جمع شدہ اعدادوشمار کا تجزیہ کیا جس سے پتہ چلا کہ کم عمری میں شادی کا رواج دنیا کے کئی ملکوں میں ہے، ان میں وسطی افریقہ، لاطینی امریکہ، جزائرغرب الہند، جنوبی و مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے ملک شامل ہیں۔
یونیسف کی ڈائریکٹر ہینریٹا فورکہتی ہیں چھوٹی عمر کی شادی بچپن چرا لیتی ہے۔ کم عمری میں دلہا بننے والوں کو بالغ شخص کی ذمہ داریاں لینے پر مجبور کردیا جاتا ہے حالانکہ وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ کم عمری میں شادی کا ایک اور مطلب جلد والد بن جانا بھی ہے۔ اس صورت میں کم عمر باپ کے کاندھوں پر خاندان کی کفالت کی ذمہ داری آن پڑتی ہے اور نتیجے کے طور پر تعلیم اور روز گار کے مواقعے کم ہو جاتے ہیں۔
یونیسف کی رپورٹ کے مطابق جمہوریہ وسطی افریقہ میں لڑکوں کی کم عمری میں شادی کا رواج سب سے زیادہ (28 فیصد) ہے۔ اس کے بعد نگرا گوا (19 فیصد) اورپھر مڈغاسکر (13) ہے۔
ایک تازہ اندازے کے مطابق گذشتہ چند برس میں دنیا بھر میں ساڑھے 76 کروڑ لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی کم عمری میں کردی گئی۔ یونیسف کا کہنا ہے کہ کم عمری میں شادی کی وجہ سے لڑکیاں نسبتاً زیادہ متاثرہوئی ہیں۔
20 سے 24 برس عمر کی ہرپانچ میں ایک خاتون کی شادی ان کی 18 ویں سالگرہ سے پہلے ہی کردی گئی تھی۔ مردوں میں یہ شرح ہر30 میں ایک ہے۔
عالمی ادارے کی تحقیقی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کی کم عمری میں شادی، اس کی وجوہات اوراثرات پربہت کم تحقیق کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق جن لڑکوں کی کم عمری میں شادی کا خطرہ سب سے زیادہ ہے ان کا تعلق دیہات کے غریب خاندانوں سے ہے۔
ڈائریکٹریونیسف ہینریٹا فور کے مطابق: ’ہم بچوں کے حقوق کے معاہدے کی منظوری کی 30 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی کم عمری میں ہی شادی اس معاہدے میں موجود ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ مزید تحقیق اور سرمائے سے ہم اس خلاف ورزی کو روک سکتے ہیں۔ ‘