سندھ میں شادی بیاہ اور دیگر خوشی کے مواقع پر پاپڑ بنانا ایک روایت ہے، جو نسل در نسل چلتی آ رہی ہے۔ خصوصاً خوشی کے موقع پر اگر پاپڑ نہ ہوں تو وہ ادھوری سمجھتی جاتی ہے۔
لیکن سندھی پاپڑ بنانے میں بہت محتاط رہنا پڑتا ہے، خصوصاً اگر دھوپ اور روشنی زیادہ لگ جائے تو پاپڑ خراب ہوجاتے ہیں اور مصالحوں کا تناسب صحیح نہ ہو تو ذائقہ خراب ہو جاتا ہے۔
سندھ کے ضلع عمرکوٹ کی رہائشی بیری بائی بھی گذشتہ 45 سال سے پاپڑ بناتی آ رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کام انہوں نے اپنی والدہ سے سیکھا اور ان سے سیکھ کر اب ان کی بہو اور بیٹیاں بھی یہ پاپڑ بنا رہی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں 60 سالہ بیری بائی نے کہا کہ ’پاپڑ کو جتنا بڑھاتے یا باریک کرتے ہیں وہ اتنا ہی ذائقے دار بنتا ہے۔ اس میں مصالحہ پورا ہونا چاہیے، ہینگ، نمک اور زیرہ زیادہ نہیں ہونے چاہییں۔ اگر کالی مرچوں کا ذائقہ زیادہ ہوگا تو وہ مزید تیکھا ہوگا اور ذائقہ اچھا لگے گا۔ ان سب چیزوں کو دھیان میں رکھ کر ہم پاپڑ بناتے ہیں۔‘
بیری بائی نے پاپڑ بنانے کا طریقہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’پاپڑ کے آٹے میں ارڈ اور مٹر کی دال کا آدھا آدھا حصہ ڈال کر پہلے چھانتے ہیں، اس کے بعد تھال میں رکھ کر مصالحہ جات ڈالتے ہیں اور پھر اس میں کالی مرچ، زیرہ، میٹھا سوڈہ، ہینگ اور نمک پر مشتمل مصالحہ مکس کرکے آٹے کو پانی سے گوندھتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ ’آٹا گوندھ کر پھر اسے دوبارہ اچھے طریقے سے گوندھتے ہیں اور اسے تھیلی میں ایک دو گھنٹے بند کرکے رکھتے ہیں تاکہ آٹا نرم اور اچھا بن جائے۔ پھر اس کو نکال کر چرخے پر رکھ کر تیل لگاتے رہتے ہیں اور مسلسل گوندھتے رہتے ہیں۔ اس کے بعد چھوٹے چھوٹے پیڑے بنا کر پتیلے میں یا کسی اور برتن میں تیل ڈال کر ساتھ پیڑے ڈال دیتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پاپڑ بنانے میں بڑی محنت اور وقت لگتا ہے۔ ’ایک ایک پیڑا نکال کر اسے بیلتے ہیں اور بعد میں سکھانے کے لیے چارپائی پر رکھتے جاتے ہیں۔ پھر تھوڑا سکھا کر ان بیلے ہوئے پاپڑوں کو تھیلی میں بند کرکے رکھتے ہیں۔‘
بیری بائی بتاتی ہیں کہ اگر کوئی مہمان آتا ہے تو ہم فوراً چائے کے ساتھ پاپڑ پکا کر پیش کرتے ہیں۔ ’ہمیں بہت خوشی ہوتی ہے کہ گھر آئے ہوئے مہمانوں کو چائے پاپڑ پیش کریں۔ پاپڑ ہماری زندگی اور خوراک کا حصہ بن چکے ہیں۔‘