فیس بک کی مالک کمپنی میٹا نے جاسوسی کے لیے فیس بک کا استعمال کرنے والے ’کرائے کے سائبر فوجیوں‘ پر پابندی لگاتے ہوئے پوری دنیا میں ان کے نشانے پر آئے ہوئے کارکنوں، حکومتی مخالفین اور صحافیوں سمیت تقریباً 50 ہزار افراد کو خبردار کرنا شروع کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق میٹا نے 1500 فیس بک گروپوں اور ان سے منسلک انسٹاگرام اکاؤنٹس کو ڈیلیٹ کیا ہے، جو لوگوں کی معلومات چرا کر اپنے ہدف کو نشانہ بنانے یا ہیک کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔
کمپنی نے 100 سے زائد ممالک میں تقریباً 50 ہزار افراد کو بھی خبردار کرنا شروع کر دیا ہے، جن کے بارے میں اس کا خیال ہے کہ مذکورہ فرمز نے انہیں نشانہ بنایا ہوگا۔ ان میں اسرائیل کی بھی کچھ فرمز شامل ہیں، جو سائبر نگرانی کے کاروبار میں سرکردہ نام ہیں۔
میٹا میں سکیورٹی پالیسی کے سربراہ نتھانیل گلیچر نے پریس بریفنگ کے دوران کہا: ’ ایسا لگتا ہے کہ نگرانی کے لیے کرائے کی صنعت، زیادہ بولی لگانے والے کی طرف سے ہدف کو بلا تفریق نشانہ بناتی ہے۔‘
فیس بک کی مالک کمپنی نے کہا کہ اس نے کوب ویبز ٹیکنالوجیز، کوگنیٹ، بلیک کیوب اور بلیو ہاک سی آئی سے منسلک اکاؤنٹس ڈیلیٹ کر دیئے ہیں- یہ سب اسرائیل میں تھے یا وہاں سے بنائے گئے تھے۔
میٹا نے بھارت میں قائم بیل ٹروکس، شمالی مقدونیہ کی فرم سائٹروکس اور چین سے ایک نامعلوم شخص کے ساتھ منسلک اکاؤنٹ کو بھی ہٹا دیا ہے۔
جمعرات کو کینیڈین سائبر سکیورٹی تنظیم سٹیزن لیب کے محققین نے شمالی مقدونیہ کی فرم سائٹروکس پر مصری حزب اختلاف کی شخصیت ایمن نور کا فون ہیک کرنے کے لیے استعمال ہونے والا سپائی ویئر تیار کرکے فروخت کرنے کا الزام لگایا تھا۔
میٹا کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’کرائے کے یہ سائبر فوجی اکثر دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی خدمات صرف مجرموں اور دہشت گردوں کو نشانہ بناتی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مزید کہا گیا کہ ’درحقیقت بلا تفریق نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس میں صحافی، منحرف، آمرانہ حکومتوں کے ناقدین، حزب اختلاف کے ارکان کے اہل خانہ اور انسانی حقوق کے کارکن شامل ہیں۔ ہم نے ان پر اپنی سروسز کے استعمال کی پابندی عائد کر دی ہے۔‘
دوسری جانب بلیک کیوب نے اے ایف پی کو دیئے گئے ایک بیان میں کسی بھی غلط کام یا یہاں تک کہ ’سائبر ورلڈ‘ میں کام کرنے کی تردید کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلیک کیوب رشوت ستانی ثابت کرنے، بدعنوانی سے پردہ اٹھانے اور چوری شدہ اثاثوں میں کروڑوں کی وصولی میں دنیا کی معروف قانونی فرموں کے ساتھ کام کرتی ہے۔
بلیک کیوب کا کہنا ہے کہ فرم اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ وہ مقامی قوانین کی تعمیل کرے۔
’ویب انٹیلی جنس سروسز‘ فروخت کرنے والی فرمز عوامی طور پر دستیاب آن لائن ذرائع جیسے کہ خبروں اور وکی پیڈیا سے معلومات اکٹھا کرکے نگرانی کا عمل شروع کرتی ہیں۔
میٹا کی تحقیقات کے مطابق اس کے بعد لوگوں کی پروفائلز سے معلومات حاصل کی جاتی ہیں اور مزید جاننے کے لیے، گروپوں یا بات چیت میں شامل ہونے کے لیے سوشل میڈیا سائٹس پر جعلی اکاؤنٹس بنائے جاتے ہیں۔
ایک اور حربہ یہ ہے کہ سوشل نیٹ ورک پر ہدف کا اعتماد حاصل کیا جائے اور پھر اس شخص کو دھوکہ دیا جائے کہ وہ ایک لنک یا فائل پر کلک کرے، جس کے ذریعے کوئی مخصوص سافٹ ویئر انسٹال ہو جاتا ہے اور پھر (ہدف) آن لائن ہونے کے لیے جو بھی ڈیوائس استعمال کرتا ہے، ہیکر اس سے معلومات چوری کر سکتا ہے۔
میٹا ٹیم کے مطابق اس طرح کی رسائی کے ساتھ ’کرائے کے یہ لوگ‘ ہدف کے فون یا کمپیوٹر سے ڈیٹا چوری کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی خاموشی سے مائیکروفون، کیمرے اور ٹریکنگ کو فعال کرسکتے ہیں۔
میٹا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمپنی بلیو ہاک، بڑے پیمانے پر نگرانی کرنے اور مشکوک کوڈ انسٹال کرنے کے لیے جعلی اکاؤنٹس بنانے کی خدمات فراہم کرتی ہے۔
میٹا کے مطابق بلیو ہاک سے منسلک کچھ جعلی اکاؤنٹس نے اپنے آپ کو امریکہ میں فاکس نیوز اور اٹلی میں لا سٹمپا جیسے ذرائع ابلاغ کے صحافیوں کے طور پر پیش کیا۔
اگرچہ میٹا یہ نہیں بتا سکی کہ بے نام چینی آپریشن کون چلا رہا ہے، لیکن اس نے سرورز میں شامل نگرانی کے ٹول کی ’کمانڈ اینڈ کنٹرول‘ کا سراغ لگایا، جو بظاہر چین میں قانون نافذ کرنے والے حکام کے زیر استعمال تھا۔