امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کو خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ کی کسی بڑی طاقت کے ساتھ حقیقی جنگ ہوئی تو اس کی وجہ سائبر حملے ہو سکتے ہیں۔
امریکی صدر کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ واشنگٹن روس اور چین کی جانب سے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر مستقبل میں کیا دیکھ رہا ہے۔
نیٹ ورک مینیجمنٹ کمپنی سولر ونڈز، دا کلونیل پائپ لائن کمپنی، میٹ پروسیسنگ کمپنی جے بی ایس اور سافٹ ویئر فرم کیسیا پر بڑے سائبر حملوں کے بعد سائبر سکیورٹی کا معاملہ بائیڈن انتظامیہ کے ایجنڈے میں سب سے اوپر جا چکا ہے۔
ان سائبر حملوں نے مذکورہ کمپنیوں کے مقابلے میں امریکہ کو کہیں زیادہ متاثر کیا۔ بعض حملوں کی وجہ سے امریکہ کے کچھ حصوں میں ایندھن اور خوراک کی فراہمی متاثر ہوئی۔
ڈائریکٹر آف دی نیشنل انٹیلیجنس (او ڈی این آئی) کے دفتر کے دورے کے موقعے پر آدھے گھنٹے کی تقریر میں جو بائیڈن نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ یہ بات امکان سے آگے بڑھ چکی ہے کہ ہم نتیجے کی طرف جا رہے ہیں اور ہمارے لیے نتیجہ جنگ میں صورت میں نکلا تو یہ ایک بڑی طاقت کے ساتھ حقیقی جنگ ہو گی۔
’یہ جنگ بڑے نتائج کی حامل سائبر خلاف ورزی کا نتیجہ ہو گی۔ بڑی طاقت اپنی صلاحیتوں میں نمایاں اضافہ کرنے میں مصروف ہے۔‘
واضح رہے کہ 16جون کو جینیوا میں ہونے والی سربراہ ملاقات میں صدر بائیڈن نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن کے ساتھ امریکی میں حساس اور اہم بنیادی اداروں اور ڈھانچے کی فہرست برداشت کی جن پر سائبر حملے ہرگز قبول نہیں کیے جائیں گے۔
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ تب سے بائیڈن انتظامیہ کی قومی سلامتی کی ٹیم کے سینیئر عہدے دار امریکہ پر سائبر حملوں کے معاملے میں کریملن کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔
دوسری جانب بائیڈن نے چین کی طرف سے لاحق خطرات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے صدر شی جن پنگ کا حوالہ دیا کہ وہ’دنیا کی سب سے زیادہ طاقت ور فوجی طاقت اور 2040 کی دہائی کے وسط تک دنیا میں سب سے زیادہ نمایاں معیشت بننے کی شدید ترین خواہش رکھتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
او ڈی این آئی کے تقریباً 120 ملازمین اور اعلیٰ عہدے داروں سے خطاب میں بائیڈن نے امریکی خفیہ اداروں کے ارکان کا شکریہ ادا کیا اور ان کی کارکردگی پر اعتماد کا اظہار کیا۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ ان پر سیاسی دباؤ نہیں ڈالیں گے۔ واضح رہے کہ او ڈی این آئی 17 امریکی خفیہ اداروں کی نگرانی کے فرائض انجام دیتا ہے۔
’آپ جو کام کرتے ہیں میں کبھی اسے سیاسی نہیں بناؤں گا۔ یہ میرا آپ سے وعدہ ہے۔ یہ ملک کے لیے بہت اہم ہے۔‘
بائیڈن کے بیان سے ان کے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کے ریمارکس سے علیحدگی کا واضح اشارہ ملتا ہے جن کی مختلف معاملات میں خفیہ اداروں کے ساتھ محاذ آرائی تھی جن میں خفیہ اداروں کا یہ تجزیہ بھی شامل ہے کہ 2016 کے صدارتی الیکشن میں روس نے ٹرمپ کو جتوانے کے لیے مداخلت کی تھی۔
خفیہ اداروں نے اس انکشاف میں بھی کردار ادا کیا کہ ٹرمپ نے یوکرین پر دباؤ ڈالا کہ وہ بائیڈن کے خلاف تحقیقات کرے۔
ٹرمپ کو اپنے چار سالہ دور میں نیشنل انٹیلی جنس کے چار مستقل یا قائم مقام ڈائریکٹرز سے گزرنا پڑا تھا۔