ایران اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں جاری مذاکرت جمعے کو ملتوی ہو گئے۔
ایرانی مذاکرات کار صلاح مشورے کے لیے تہران واپس چلے گئے ہیں۔ جوہری معاہدے پر ہونے والی بات چیت ایران کے نئے مطالبات کی وجہ سے کشیدگی کا شکار ہوئی۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق یورپی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ویانا میں ہونے والے ’مذاکرات میں وقفہ مایوس کن‘ ہے اور بات چیت ’تیزی سے راستے کے اختتام‘کی جانب بڑھ رہی ہے۔
تاہم سفارت کار اب تک ’کچھ تکنیکی پیش رفت‘ کی جانب ضرور اشارہ کر رہے ہیں۔ مذاکرات سے جڑے اعلیٰ امریکی عہدے دار نے بھی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بتایا: ’یہ اس سے بہتر تھا جتنا یہ ہو سکتا تھا۔ یہ اس سے بدتر تھا جتنا اسے ہونا چاہیے تھا۔
’اس نے ہمیں غیریقینی صورت حال سے دوچار کر دیا ہے کہ آیا ہم وہاں تک جا سکتے جہاں مختصر وقت میں ہمیں جانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس اس مقام تک پہنچنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔‘
مذاکرات کے شرکا کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد بات چیت کا جلد دوبارہ آغاز ہے۔ تاہم انہوں نے کسی تاریخ کی تصدیق نہیں کی۔
چین کے چیف مذاکرات کار وان کن نے کہا کہ ’امید ہے سال ختم ہونے سے پہلے بات چیت دوبارہ شروع ہو جائے گی۔‘
مذاکرات کی سربراہی کرنے والے یورپی یونین کے سفارت کار اینریک مورا کے بقول: ’مجھے امید ہے کہ ایسا 2021 میں ہوگا۔‘
واضح رہے کہ ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے، جسے کمپریہنسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کا نام دیا گیا ہے، میں شامل باقی ملکوں کے درمیان ویانا میں ہونے والے مذاکرات پانچ ماہ کے وقفے کے بعد 29 نومبر میں شروع ہوئے تھے۔ ایران میں نئی سخت گیر حکومت کا قیام عمل مذاکرات میں وقفے کا سبب بنا۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں 2018 میں معاہدے سے الگ ہونے والا امریکہ مذاکرات میں بالواسطہ طور پر شریک ہے۔
موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن دوبارہ معاہدے کا حصہ بننے کا اشارہ دے چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مورا کے مطابق: ’آٹھویں نشست کے لیے ہمارے سامنے بہت سا کام ہے۔ میں کہوں گا کہ یہ بہت پیچیدہ کام ہے۔ مشکل سیاسی فیصلے کرنے ہوں گے۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مذاکرات میں شامل برطانیہ، فرانس اور جرمنی، جنہیں ای تھری کہا جاتا ہے، کے سفارت کاروں کا ویانا میں ختم ہونے والے بات چیت کے تازہ دور کے اختتام پر اپنے بیان میں کہنا تھا کہ ’گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کچھ تکنیکی پیش رفت ہوئی ہے لیکن یہ ہمیں واپس اس مقام کے قریب تر لے گئی جہاں مذکرات جون میں کھڑے تھے۔‘
سفارت کاروں کے بقول: ’ہم تیزی سے اس مقام کی طرف جا رہے ہیں جہاں یہ سڑک ختم ہو جاتی ہے۔ انہوں نے تہران کی درخواست وقفے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے بات چیت کے عمل کو تیز پر زور دیا۔
سفارت کاروں کے مطابق: ’ہمارے پاس اچھا مقام آغاز ہے۔ (مذاکرات) کے اگلے دور میں ہم اصل معاملے پر بات کرنا شروع کریں گے۔‘