اسلام آباد میں او آئی سی اجلاس کے پہلے سیشن کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ ’افغانستان بیرونی دنیا کے ساتھ امریکہ کی خواہش کے مطابق تعلقات بنائے تو یہ افغانستان کے لوگوں پر ظلم ہے۔‘
انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ افغانستان کے لوگ خطرناک صورت حال سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ ’اصول ہے کہ جب کسی حکومت کے پاس زمین ہو، لوگ ہو، عوام پر حکومت کا کہنا چلتا ہو اور امن قائم ہو تو اس حکومت کو حق حاصل ہے کہ اسے قبول کیا جائے۔‘
’ہماری حکومت کو قبول نہ کرنا افغانستان کے لوگوں کے ساتھ ظلم اور ان کے حقوق غصب کرنے کے مترادف ہے۔ چاہیے کہ افغانوں کا حق ان کو ملے اور افغان عوام کی تکالیف ختم ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارے جیسے بنک اسلامی اور عالمی بنک افغانستان میں پروجیکٹس شروع کریں کیونکہ افغانستان ایک بڑی آبادی والا ملک ہے اور اس کی مشکلات ایسے حل نہیں ہو سکتیں۔
’یہ ہمارا حق ہے جو ہمیں دیا جانا چاہیے البتہ رسمی طریقے سے تسلیم کیا جانا کوئی مختلف بات نہیں ہے، دنیا کے ساتھ ہمارے روابط ہیں، وہ ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہمارے مطالبات سنتے ہیں، کابل میں کئی سفارت خانے کھلے ہیں، ہمارے رسمی دورے ہوتے ہیں، دنیا کے کئی ممالک میں ہمارے سفارت خانے کھل چکے ہیں اور دن بدن ترقی کر رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امیر خان متقی نے مزید کہا ’ایسا کچھ نہیں کہ دنیا ہمارے ساتھ رابطے میں نہیں ہے۔ اسی تعاون کو تسلیم کرنا ماننے کے مترادف ہے۔ آہستہ آہستہ یہ صورت حال معمول کو پہنچ جائے گی۔‘
افغان خواتین کو کسی مسئلے کا سامنا نہیں:
افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کا مزید کہنا تھا کہ افغان خواتین کو ’کسی رکاوٹ یا مسئلے‘ کا سامنا نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بیان ایسے وقت میں دیا ہے جب افغانستان میں طالبان کی نئی انتظامیہ کو عالمی سطح پر خواتین کے حقوق کی یقین دہانی کرانے کے دباؤ کا سامنا ہے۔ عرب نیوز کے مطابق امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ ’زیادہ تر مسائل میڈیا کے تخلیق کردہ ہیں۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے میں کہنا چاہوں گا کہ ہم مسلمان ہیں اور ہماری قیادت بھی مسلمان ہے اور ہم یقین دلاتے ہیں کہ افغان خواتین کو کئی مشکل درپیش نہیں ہے۔‘