’اگر ہم نظر دوڑائیں تو اندازہ ہوگا کہ بہت سارے ممالک اپنا 80 فیصد بجٹ افواج کو منسوب کر دیتے ہیں۔ میں ان سب سے کہنا چاہوں گی کہ ہمیں اس قسم کے تحفظ کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ پیسہ خواتین، بچوں، کھیلوں، صحت اور تعلیم پر لگایا جائے تو ملک خود بخود محفوظ ہو جائے گا۔‘
یہ الفاظ تھے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی سکواش کی کھلاڑی ماریہ طورپکئی وزیر کے جو گذشتہ دونوں وینکوور، کینیڈا میں ہونے والی ویمن ڈیلیور کانفرنس میں مخاطب تھیں۔
یہ کانفرنس تین سال میں ایک مرتبہ منعقد ہوتی ہے اور اس سال وینکوور میں 3 جون سے 6 جون تک جاری رہی جس میں دنیا بھر سے ایکٹویسٹ اور حکومتی اداروں کے نمائندے شامل تھے جو خواتین کے حقوق اور صنفی برابری خصوصاً صحت، تعلیم اور جسمانی خود مختاری کے حوالے سے سرگرم ہیں۔
کانفرنس کے ایک سیشن میں بات کرتے ہوئے ماریہ طورپکئی وزیر نے نہ صرف برابری کی اہمیت پر روشنی ڈالی بلکہ ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ کھیل کے ذریعے دنیا میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا: ’میں تمام لوگوں کو یہی کہتی ہوں کہ میرے لوگوں کو دہشت گرد نہ بلایا جائے کیونکہ ان کو تو فقط منشیات اور اسلحہ فراہم کیا گیا تھا۔ کاش ان کو کتابیں اور کھیلنے کے مواقع ملتے تو منظر بہت الگ ہوتا۔ ہم لوگ دہشت گردی کی تجارت سے منسوب ہیں لیکن میں جیتی جاگتی مثال ہوں کہ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ممکن ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ بہت سے ممالک اپنا زیادہ تر بجٹ فوج کو منسوب کرتے ہیں، لیکن اگر وہی پیسہ خواتین، بچوں، کھیلوں، صحت اور تعلیم پر لگایا جائے تو ملک خود بخود محفوظ ہو جائے گا۔
صنفی برابری حاصل کرنے کے سفر میں آنے والے مسائل کے حوالے سے ماریہ کا کہنا تھا کہ پدرسری سوچ جو کہ دونوں مردوں اور عورتوں میں پائی جاتی ہے اس مسئلے کی اصل جڑ ہے۔
ان کے مطابق جب انہوں نے کھیلنا شروع کیا تھا تو وہ واحد لڑکی تھیں جو کھیلتی تھیں لیکن اب کافی لڑکیاں آگے بڑھ رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’میرے پاس کچھ لڑکیاں آئی تھیں جو میری طرح کھیلنا چاہتی تھیں۔ میں ان کو کوچ کے پاس لے گئے اور انہوں نے اپنے برقعے اتار کر کھیل کے لباس پہن لیے۔ وہ پہلا موقع تھا جب انہوں نے اپنے بازو گیند کی جانب کھینچے تھے۔ وہ بہت آزاد محسوس کر رہی تھیں۔ ان کو یہ خبر نہیں تھی کہ وہ اپنا بازو پھیلا بھی سکتی تھیں۔ کھیلوں کو فقط پیسے یا ہار جیت سے منسوب کرنا غلط ہے۔ بلکہ تمام بچوں کو کھیلنے کا حق ہونا چاہیے کیونکہ یہ خوشی کا باعث بنتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’جب مجھے طالبان کی جانب سے دھمکیاں موصول ہوئیں اور میں نے ایف آئی آر درج کروائی تو مجھے پولیس نے اپنے ساتھ بندوق رکھنے کو کہا لیکن میں نے انہیں صاف انکار کر دیا کیونکہ میرے لیے میرا ریکیٹ ہی میرا اسلحہ تھا۔ جب آرمی آپریشن شروع ہوا تو میں نے ہسپتال کی طرف توجہ دی کیونکہ وہ وقت کی ضرورت تھی لیکن میری فاونڈیشن کی یہ کوشش ہے کہ میں خواتین اور بچوں کے لیے پاکستان اور افغانستان میں سپورٹس سینٹر قائم کروں۔‘
’لیڈ بائے ایگزیمپل‘ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ماریہ نے کہا کہ انکے والد اس کا ثبوت تھے کیونکہ وہ گھر میں تمام کاموں میں ان کی والدہ کا ہاتھ بٹاتے تھے اور بچوں سے بھی کافی قربت رکھتے تھے جو پاکستان میں ایک معیوب بات سمجھی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا: ’تمام والدین خصوصاً والد اپنی اولاد کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں کیونکہ اس سے بڑا تحفہ کچھ نہیں ہو سکتا۔‘