عید کراچی میں گزارنی تھی اور سفر ریل میں کرنا تھا۔ رستہ کاٹنے کے لیے ایک ہی ہلے میں خشونت سنگھ، رضاعلی عابدی، فضل الرحمن قاضی اور حسن معراج کی کتابیں ٹرین ٹو پاکستان، ریل کہانی، روداد ریل کی اور ریل کی سیٹی اٹھا لیں۔
ان میں قاضی صاحب کی کتاب ہی تھی جو پہلے نہیں پڑھی تھی۔باقی کتابیں اس لیے اٹھائیں کہ ریل میں مطالعہ کرنے کی وجہ سے یہ کتابیں کسی حد تک شاید بیت بھی جائیں۔ سچ یہ ہے کہ ایسا ہی ہوا۔حسن معراج کی ’ریل کی سیٹی‘ پڑھی تھی تو سوچا تھا کہ جب کبھی راولپنڈی سٹیشن سے ریل کا سفر کیا تو یہ کتاب ساتھ رکھوں گا۔
یہ کتاب راولپنڈی شہر سے ہی چلتی ہے اور پنجاب کے دوسرے سرے پر جاکر ختم ہوتی ہے۔ یہ ریل پٹڑی کے دونوں اطراف گزرنے والی بستیوں کااندر تک مشاہدہ کرواتی ہے۔کراچی پہنچنے تک یہ کتاب پڑھنے کا موقع تو نہ آ سکا مگر ریل جب وسیب کے صحراؤں میں داخل ہوئی تو کتاب کھول کر حسن معراج کی لکھی دو سطروں کو پڑھ کر لطف لیا۔ ممکن ہو تو آپ بھی لیجیے:
’دن رات پرو رونق رہنے والا یہ (سمہ سٹہ بہاولپور) ریلوے سٹیشن اب ویران پڑا ہے۔ سنا ہے 2011 میں اسے بند کر دیا گیا۔ اب ریل یہاں سے گزرتی تو ہے پر رکتی نہیں۔ ہاں روہی کی ان صحرا نورد آوازوں میں گم ہونے سے پہلے ایک کُوک ضرور بھرتی ہےجو دور دور تک سنائی دیتی ہے۔‘
حسن معراج کی کتاب میں یہ کوک ملتان سٹیشن پر بھی سنائی دیتی ہے۔ اس کتاب سے اٹھنے والی ریل کی کوک ویسے ہی پراسرار ہے جیسی کہ اختر رضا سلیمی کے ناول ’جندر‘ میں جندر کی کوُک ہے جسے سن کر دل میں ایک ہُوک سی اٹھتی ہے۔ قیامت ہو جائے اگر اس کے بعد کانوں میں ہیڈ فون ٹھونس کر نصرت فتح علی خان کی ’سن چرخے دی میٹھی میٹھی کوک ماہیا مینوں یاد آوندا، میرے دل وچوں اٹھ دی اے ہُوک مایا مینوں یاد آنودا‘ سننے لگ جائیں۔
بتیاں بجھ گئی ہو ں آپ نیند میں اتر رہے ہوں۔ دور پھر سے ایک کوک سنائی دے، ریل کسی نامعلوم مقام پر رک جائے اور آپ کروٹ بدل کر نیند کو گلے لگا لیں۔ ہلکی سی نیند میں کسی نامعلوم سمت سے پھر کُوک سنائی دے، پٹڑیوں سے اٹھنے والی آواز سمٹ کر ایک طرف دور نکل جائے اور آپ آہستہ سے نیند میں اتر جائیں۔
سفر کے دوران جو کتاب پوری اور مستقل پڑھی وہ فضل الرحمن قاضی صاحب کی ’روداد ریل کی‘ ہے۔ یہ کتاب ریل کے پورے ارتقائی سفر کا احاطہ کرتی ہے۔ سچ پوچھیے تو ایک پاکستانی کے لیے اس کتاب کا مطالعہ کسی تلخ تجربے سے کم نہیں ہے۔ اس کتاب میں ریل کی پٹڑی جہاں جہاں بچھتی جاتی ہے قاری کی طبعیت وہاں وہاں لپکتی جاتی ہے۔ جب تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اب تو وہاں ایسی کوئی پٹڑی موجود نہیں ہے توکسی ویران جنکشن جیسی اداسی گھیر لیتی ہے۔ اس کتاب میں بنیادی طورپر زوال کی داستان نہیں ہے۔ سنہرے دور کو پڑھ کر خود ہی دل میں یہ سوال جنم لے لیتا ہے کہ یہ سب کہاں ہے اور میں نے کیوں نہیں دیکھا۔ جلد آپ کو احساس ہوجاتا ہے کہ آپ نے اس لیے نہیں دیکھا کہ ریل میں دنیانے آگے کی طرف سفر کیا ہے اور ہم نے بہت محنت سے پیچھے کی طرف زور لگایا ہے۔
ریل کا سفر بہت اچھا ہے، مگر مثانے پہ ہلکا سا دباؤ پڑنے پر بھی بجا طور پر حاجت خانے کا خیال آتا ہے۔ ریل کے سفر میں شاید یہ واحد خیال ہے جس سے باقاعدہ ہول اٹھتے ہیں۔ میں ابھی اسی کشمکش میں تھا کہ حاجت خانے جاؤں کہ صبر کا دامن سختی سے تھامے رکھوں، سامنے 1909 کا ایک دلچسپ خط آگیا۔ یہ خط اوکھیل چندراسین نے نامی مسافر نے انگریزی زبان میں ریلوے کے ڈویژونل آفیسر کے نام لکھا تھا۔ آپ بھی پڑھ لیجیے:
جناب ڈویژنل ریلوے آفیسر
میں ریل پہ سفر کر رہا تھا۔ بسیار خوراکی کے سبب میرے پیٹ میں شدید مروڑ اٹھنے لگے۔ ریل احمد پور سٹیشن پر رکی تو میں حاجت کے لیے اتر گیا۔ ابھی حاجت روائی جاری تھی کہ ناس پیٹے گارڈ نے سیٹی بجادی۔ سیٹی سن کر میں سٹپٹاگیا اور اس عالم میں دُڑکی لگائی کہ ایک ہاتھ میں لوٹا پکڑا تھا اور دوسرے ہاتھ سے لنگوٹ تھاماہوا تھا۔ ریل کو جا لینے کی تگ و دو میں دھڑام سے پلیٹ فارم پر گر پڑا۔ وہ گیا لوٹا اور یہ گئی دھوتی۔ سٹیشن پر موجود کیا خواتین اور کیا حضرات سبھی نے میرے کھلی پچھاڑی کے خوب خوب نظارے کیے۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے ہاتھ سے عزت بھی گئی اور ریل بھی گئی۔
محترم! میرے اس ہمہ جہت نقصان کا ذمہ دار وہ ناہنجار گارڈ ہے جس نے بے وقت سیٹی بجاکر مجھے ہڑبڑاہٹ میں مبتلا کردیا۔بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ ایک مسافر کو حاجت درپیش ہو اور گارڈ کو اپنی سیٹی کی پڑی ہو۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ اس گارڈ پر تگڑے سے تگڑاجرمانہ عائد کریں۔ اگر نہیں، تو پھر میں واقعے سے متعلق تگڑی خبریں اخبارات کو ارسال کرنے لگا ہوں۔ والسلام
فضل الرحمن قاضی صاحب لکھتے ہیں کہ اوتھل کا یہ خط دہلی میں واقع ریلوے کے عجائب گھر میں آج بھی محفوظ ہے۔ یہ وہ تاریخی خط ہے جس کے نتیجے میں انگریز سرکار نے ہندوستان میں پہلی بار ریل کے اندر ٹوائلٹ کی سہولت شروع کرنے کا حکم جاری کیا۔
یہ خط ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر پڑھیں تب بھی دلچسپ ہی ہے۔ تب یہ دلچسپی دو چند ہو جاتی ہے جب آپ ریل میں اس طرح موجود ہوں کہ واش روم اور نشست کے بیچ ’ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر‘ والی حالت سے دوچار ہوں۔ دنیا ریل کے حاجت کدے میں مزید سہولیات کی گنجائش تلاش کر رہی ہے اور ہم گنجائش ڈھونڈ رہے ہیں کہ مزید کیا کچھ ہے جو اس میں سے نکالا جا سکتا ہے۔ چلتی ریل میں حاجت خانے کا دروازہ کھلتے ہی لرزادینے والی صورت حال سامنے ہوتی ہے۔ایک طرف زنجیر سے بندھا ہوا لوٹا قوم کے اخلاقی زوال کی داستان بیان کر رہا ہوتا ہے دوسری طرف پہیوں کی کچھ ایسی قیامت خیزچٹاخ پٹاخ چل رہی ہوتی ہیں کہ بندہ بشر کی انتڑیاں سہم کر اور بھی باہم پیوست ہو جاتی ہیں۔
چونکہ ہم بہت محنت سے پیسے دو پیسے جوڑ کر پیٹ بھرتے ہیں اس لیے عوامی حاجت خانوں میں اپنے کیے کرائے پر پانی پھیرنے کی حماقت بالکل نہیں کرتے۔ پھر چونکہ ہم دوسروں کو نیکی کا موقع دینے کا جذبہ بھی خوب رکھتے ہیں اس لیے دوسروں پر ہی چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ آئیں اور نصف ایمان کا ثواب حاصل کر کے جائیں۔ ریلوے کا محکمہ بھی شاید اسی لیے مزید کسی بہتری کی نہیں سوچتا کہ کارِ خیر اور ہم آہنگی کا یہ سلسلہ کہیں رک نہ جائے۔ اسی جذبے سے ہم آگے بڑھتے رہے تو آنے والے وقتوں میں لوگ پاکستان ریلوے کے عجائب گھر میں محفوظ ایک تاریخی خط کا حوالہ دیا کریں گے۔ یہ وہ خط ہوگا جس کے نتیجے میں ریلوے حکام نے ریل سے ٹوائلٹ کی سہولت مستقل بنیادوں پر ختم کرکے گنیز بک میں اپنا نام درج کروایا ہو گا۔
ریل کی مجموعی صورت حال بھی مسلسل ایک ہی مصرع دہرا رہی ہے، ’دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو۔‘ ریل کا سفر اونٹ، بیل، بخارات، کوئلے اور ڈیزل سے ہوتا ہوا توانائی کے دیگر ذرائع تک پہنچا ہے۔ جبکہ پاکستان ریلوے نے خبردار کیا ہے کہ ہمارے پاس دو دن کا ڈیزل رہ گیا ہے۔ بندوبست نہ ہوا تو دم درود کا آسرا ہی رہ جائے گا۔ لاہوریوں نے چنگچی کے آگے سے موٹر سائیکلیں نکال کر گدھے گھوڑے اٹکا دیے ہیں۔جلد ہم تھائی لینڈ کے ساتھ مل کر کسی یادداشت پر دستخط کر رہے ہوں گے کہ ہاتھیوں کا ایک ریوڑ ہمیں ہدیہ کیا جاوے۔
ریل کی حالت ہمارے ہاں بہت بری ہی سہی، مگر سفر سے جنم لینے والے احساسات کا جو رنگ اس سفر میں جمتا ہے وہ کہیں اور کسی بھی طور ممکن نہیں ہے۔ ریل کا سفر پراسرار تو ہے ہی سحر انگیز بھی بہت ہے۔ ریل محض سفر کا وسیلہ نہیں ہے۔ یہ تاریخ کی ایک ایسی دستاویز ہے جس میں ہجر اور وصال کی داستانیں بھری پڑی ہیں۔بجا طور پرہمارے اجتماعی لہجوں، سُروں اور مصرعوں سے ہجرت کا ایک اثر ٹپکتا ہے۔ ہجرت کی ایک تاریخ ہے جسے ریل کی یادداشتوں سے الگ کرنا بہت مشکل ہے۔ خالی ریلوے پلیٹ فارم میں بھی کسی ٹوٹی ہوئی بینچ پر بیٹھ کر نظر کو پٹڑیوں پر دوڑائیں تو خاموشی اس طاقت سے چیخ اٹھتی ہے کہ آپ کا اندر پھٹنے کو آتا ہے۔ زندگی ہجرت کے سارے معانی کھل کر سامنے آ جاتے ہیں۔ جوش ملیح آباد ی کی نظم ’جنگل کی شہزادی‘ اس سفر کے ہر ایسے رنگ کا تقریبا احاطہ کرتی ہے مگر انتظار حسین صاحب کا افسانہ ’کٹا ہوا ڈبہ‘ تو جگر کو پھول کی پتی سے کاٹ کر رکھ دیتا ہے۔ اور پھر منیر نیازی کا شعر، جو جذبات کو نچوڑ کے رکھ دیتا ہے
صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھرگیا
ریل پرسوار ہوا تو مطالعے کا آغاز ’کٹا ہوا ڈبہ‘ سے ہی کرنا چاہا۔ گوگل سے مدد طلب کی مگر انٹرنیٹ کی ٹوٹتی بندھتی سانسیں آڑے آگئیں۔ گوگل نے انتظار صاحب کا ایک انٹرویو سامنے رکھ دیا۔ اسی انٹرویو میں انتظار صاحب نے ریل کے سفر کے حوالے سے تبصرہ کر رکھا تھا۔تبصرہ بھی کیوں کہیں، مختصر سے ایک کینوس پر پھینکے گئے بہت سادہ سے کچھ رنگ ہیں جس سے ایک پُر معانی تصویر ابھرکے سامنے آگئی ہے۔ دیکھیے:
’ریل میں میلوں کا سفر ہے۔ ریل جنگلوں، بستیوں اور کھیتوں کے درمیان سے گزر رہی ہے۔ آپ کھڑکی کے برابر بیٹھے دیکھ رہے ہیں۔ رات کو منظر عجیب ہوتا ہے۔ سارا ڈبہ سویا ہے۔ آپ جاگ رہے ہیں۔ گاڑی رکی۔ ایک سواری خاموشی سے جھٹ پٹ اتر گئی، ایک سوار ہو رہی ہے۔‘
مگر کیا کریں۔ زندگی چار دن کی ہے اور ڈیزل دو دن کا۔