افغانستان نے کئی دہائیوں سے تنازعات اور لاقانونیت کا سامنا کیا ہے اور اب اسے اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لیے اپنے غیر استعمال شدہ وسائل کے موثر استعمال کو یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
افغانستان اور پاکستان دونوں کی جانب سے علاقائی رابطوں کو فعال اور مضبوط بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات انتہائی اہم ہیں جو کہ مستقبل میں افغانستان اور پاکستان کے اقتصادی تعاون کو بڑھا سکتے ہیں اور عدم تحفظ کو کم کرسکتے ہیں۔
مزید برآں، وسیع تر علاقائی روابط کے لیے موجودہ تنظیموں اور پلیٹ فارمز میں عوامی شمولیت کے ذریعے بنیادی ڈھانچے اور اقتصادی تعلقات کا قیام بھی سماجی اور ثقافتی مسائل پر باہمی افہام و تفہیم کو بڑھانے میں مدد کر سکتا ہے۔
علاقائی روابط کی فعالیت اور موثریت کو مضبوط بنانے کی جانب اٹھائے جانے والے اقدامات دونوں ممالک میں ہمہ گیر نقطہ نظر،سلامتی اور استحکام کے ساتھ ساتھ پائیدار ترقی کا باعث بنے گا۔
پاکستان اور افغانستان کی جغرافیائی اہمیت اور سیاسی تاریخ جنوبی ایشیائی اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان ایک پل کا کام کرتی ہے اور علاقائی روابط کو فروغ دینا پورے خطے میں اقتصادی ترقی اور امن کو آگےبڑھانے کا باعث بن سکتا ہے۔
ماضی میں جنوبی ایشیا کے چند ممالک میں کشیدگی نے علاقائی تعاون کے کام کو مبہم اور مشکل کر دیا ہے، تاہم ان کشیدگیوں اور تنازعات کے نقصانات اور اثرات کے تشویش ناک نتائج کو دیکھتے ہوئے باہمی تعلقات میں بہتری اور فروغ وقت کی ایک اہم ضرورت بن گئی ہے۔
علاقائی روابط کو فروغ دینے کے لیے پاکستان اور افغانستان کو عوام سے عوام کے روابط کو مضبوط بنانے پر توجہ دینی چاہیے، تاہم ان روابط کی تعمیر میں خواتین کو یکساں طور پر نہ صرف شامل کرنے کی اشد ضرورت ہے بلکہ ان کی حیثیت ایک کلیدی سٹیک ہولڈر کی ہونی چاہیے۔
دونوں ممالک کو علاقائی رابطے کے وسیع تصور کو سمجھنے کے مقصد کے ساتھ ساتھ خطے کی خواتین کو اکٹھا کرکے ہر مرحلے پر شامل کرنا ہوگا۔
پاکستان اور افغانستان کے اکثریتی علاقوں میں پہلے سے ہی صنفی نقطہ نظر سے معاملات کو جانچنا اور پرکھنا اب بھی بہت حد تک چیلنجنگ ہے، جس کی وجہ سے اکثریتی معاملات میں خواتین کی شرکت تو دور، ایک طرح سے وہ مکمل طور پر نظر انداز ہوتی آ رہی ہیں۔
کہیں کہیں چند تنظیمیں اور نیٹ ورکس ایک عرصے سے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کر رہے ہیں اور پورے خطے میں مختلف اقدامات کے ذریعے عوام کے درمیان تعلقات استوار کر رہے ہیں۔
ان کے کامیاب اقدامات کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے انہیں مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، جس سے افغانستان اور پاکستان میں امن اور تعاون کو فروغ دینے کا ماحول پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔
پاکستان کی معانت سے افغانستان کی حکومت کو نجی اور سرکاری سرمایہ کاروں کے لیے نئے پرکشش پروگرام متعارف کرانے کے علاوہ انفراسٹرکچر کی ترقی، ہنر کے فروغ، زراعت کی ترقی اور نجی شعبے کی ترقی سمیت علاقائی اقتصادی تعاون کے فورمز کا قیام عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔
ان کوششوں میں بھی خواتین کو شامل کیا جانا چاہیے، جس سے خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے میں مدد ملے گی۔
ان پروگراموں کے اہم پہلوؤں میں اقتصادی منڈیوں تک رسائی کو فروغ دینے، خواندگی اور کاروباری انتظام کی مہارتوں کی خصوصی تربیت، مالی وسائل تک رسائی اور خواتین کی معاشی شراکت میں موجود قانونی رکاوٹوں کو دور کرنے پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔
ان تمام اقدامات کو اس بات سے تقویت ملنی چاہیے کہ ہماری خواتین خطے میں موثر معاشی کردار ادا کرنے کی بھرپور اہلیت رکھتی ہیں۔
تاہم ان کی شرکت میں حائل رکاوٹوں کو حل کرتے ہوئے، بشمول پاکستان اور افغانستان کی خواتین کے درمیان بہتر روابط کو فروغ دینا ہوگا، جس کے نتیجے میں وہ اپنی پوری صلاحیتوں کا ادراک اور مناسب استعمال کر سکیں گی۔
خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے اہم ہے کہ تمام علاقائی اقتصادی ترقی کے منصوبوں میں ان کی شمولیت کو لازمی قرار دیا جائے۔
پاکستان اور افغانستان کے لیے یہ صحیح وقت ہے کہ وہ اپنی علاقائی تعاون کی حکمت عملی کا ازسر نو تعین کریں اور تمام علاقائی تعاون اور سرمایہ کاری کے منصوبوں میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنائیں۔
ہمارے خطے کی خواتین کے پاس درکار علم، ہنر اور صلاحیت موجود ہے، جسے وہ نہ صرف اپنی کامیابی کے لیے استعمال کرسکتی ہیں بلکہ اس سے وہ اپنے گھر اور معاشرے کی ترقی میں بھی اپنا حصہ ڈال سکیں گی۔
یہ بہت مناسب وقت ہے کہ دونوں ممالک خواتین میں روابط کے فروغ کے لیے ایک نیٹ ورک قائم کریں تاکہ علم اور معلومات کا تبادلہ جاری رکھا جا سکے، جو طویل مدتی تعلقات کو مزید مضبوط کرے گا۔
وہ افغانستان جس کی معیشت کا زیادہ تر دارومدار باہر سے آنے والی امداد پر ہے، ایسے میں افغانستان کو تجارت اور ٹرانزٹ معیشت کی طرف منتقل کرنے کا ایک طویل سفر ابھی باقی ہے۔
یہ بھی ایک حقیقیت ہے کہ پہلے ملنے والی امداد میں اب شدید کمی ہو رہی ہے اور اگر امداد مل بھی جائے تو بہت حد تک مشروط امداد ملے گی، جبکہ افغانستان کے مسلے میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، لہذا مستقبل قریب میں افغانستان کو اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا انحصار بنیادی معاشی ڈھانچے کی ترقی، اصلاحات، علاقائی تجارتی دشمنیوں سے پرامن طریقے سے نمٹنے، وسائل کا انتظام بہتر بنانے، مقامی صلاحیتوں کی تعمیر اور بہتر حکمرانی کو یقینی بنانے پر ہے۔
افغانستان کو لازمی طور پر مربوط پالیسیاں بنانی ہوں گی، جس میں مقامی صلاحیتوں کا موثر استعمال اور ترقی بنیادی توجہ کی حامل ہو تاکہ خطے کے دوسرے ممالک کو ان اقدامات سے منسلک ہونے پر آمادہ کیا جا سکے۔
تجزیاتی طور پر دیکھا جائے تو افغانستان ایک علاقائی مرکز کے طور پر اپنے وسائل اور صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے میں حائل رکاوٹوں کو اکیلے حل نہیں کر سکتا اور اسے اپنے مسائل کو منافعے میں تبدیل کرنے کے لیے علاقائی مدد اور ہم آہنگی کی شدید ضرورت ہے۔
اسی طرح افغانستان کی حکومت کو علاقائی اقتصادی تعاون کے ذریعے خواتین کو اقتصادی طور پر بااختیار بنانے کے لیے بھی ایک مکمل پروگرام وضع کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ساتھ مشترکہ منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہے، جیسے خواتین کی ملکیت والے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (SMEs) کی ویلیو چین ڈویلپ کرنا اور مقامی منڈیوں کو علاقائی اور بین الاقوامی منڈیوں سے جوڑ کر مارکیٹ تک رسائی ممکن بنانا۔ کثیر القومی اداروں کی سپلائی چینز میں افغانستان اور پاکستان کی مقامی خواتین کی ملکیت والے کاروباروں کی موجودگی ان کی بین الاقوامی مسابقت کو بڑھا دے گی۔
جب ملک گیر پروگراموں میں خواتین کو کلیدی سٹیک ہولڈرز کے طور پر شامل کرنے کو یقینی بنانے کی بات آتی ہے تو پاکستان کے پاس افغانستان کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے چند بہت موثر مثالیں موجود ہیں، جس میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایک اہم مثال ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ ایک ایسا پروگرام ہے جو خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے کے ساتھ ساتھ فنانس اور ہنر تک رسائی پر مرکوز ہے اور نچلی سطح پر خاص کر دیہی علاقوں میں خواتین کو آمدنی پیدا کرنے میں مدد کر رہا ہے۔ یہ پروگرام پڑوسی ملک افغانستان میں بھی نقل کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام، جو زچہ و بچہ کی دیکھ بھال کی سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک گیر پولیو مہم میں اہم مدد فراہم کرتا آرہا ہے اور اب کرونا وائرس جیسے وبائی مرض میں بھی خدمات انجام دینے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس پروگرام کو بھی افغانستان میں کامیابی سے نقل کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کو ان پروگراموں کو صحیح طریقے سے تیار کرنے میں برسوں لگے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان معلومات اور تجربات کے تبادلے کی ضرورت ہے تاکہ استعداد کار میں اضا فہ کیا جاسکے اور ایک دوسرے کی مدد کی جاسکے۔
افغانستان اور پاکستان کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ منصوبے شروع کرنے چاہییں کہ صنفی تنوع تمام علاقائی تعاون اور سرمایہ کاری کے منصوبوں کے مکمل نفاذ میں اقتصادی ترقی کے لیے فائدہ مند ثابت ہو۔