محسن حسن خان اس وقت ڈریسنگ روم میں تھے۔ بنگلور کا میدان تھا۔ پاکستانی ٹیم ستمبر 1983 میں بھارت کے دورے پر تھی۔ ایسے میں کسی نے آکر محسن حسن خان کو بتایا کہ کوئی ان سے ملاقات کا خواہش مند ہے۔
پاکستانی ٹیم بیٹنگ کر رہی تھی تو اسی لیے محسن حسن خان کے لیے سہولت تھی کہ آنے والے سے ملاقات کرلیں۔ ڈریسنگ روم سے باہر نکل کر مطلوبہ مقام پر پہنچے تو وہاں ہدایت کار جے پی دتہ کو اپنا منتظر پایا۔
محسن حسن خان بخوبی طور پر انہیں جانتے تھے کیونکہ ایک تو ان کا تعارف رینا رائے کی وجہ سے ہوچکا تھا۔ وہیں ہر پاکستانی کی طرح بھارتی فلمیں دیکھنے کا شوق کرکٹرز کو بھی رہا تھا۔
دورہ بھارت کے دوران سینیما گھروں میں فلمیں بھی دیکھی جاتیں اور فلمی شخصیات سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہتیں۔ عمران خان کی طرح دیگر کئی پاکستانی کھلاڑیوں کو بھی فلموں کی پیش کشیں ہوتیں لیکن کرکٹرز کی توجہ صرف کھیل پر ہی رہتی۔
اس ملاقات میں ہدایت کار جے پی دتہ نے جو فرمائش کی، اس کے لیے محسن حسن خان کسی صورت تیار نہیں تھے کیونکہ بطور کرکٹر بھی وہ پرستاروں اور کیمروں کی جھلماتی ہوئی دنیا سے دور ہی رہتے لیکن جے پی دتہ چاہتے تھے کہ محسن حسن خان ان کی فلم کے ہیرو بنیں۔
’لارڈز کے لارڈ‘ کہلانے والے محسن حسن خان نے شاہانہ انداز میں جے پی دتہ کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ فی الحال تو ان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ ابھی تو کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ جے پی دتہ مایوس ہو کر لوٹ گئے۔
ٹیسٹ میچ کے اگلے دن پھر انہیں بتایا گیا کہ جے پی دتہ آئے ہیں۔ ایک بار پھر ان کے لبوں پر وہی خواہش تھی لیکن محسن حسن خان نے پھر معذرت کرلی۔
محسن حسن خان کو اس وقت اور زیادہ خوشگوار حیرت ہوئی، جب تیسرے دن بھی جے پی دتہ میدان میں پہنچے ہوئے تھے تو جان چھڑانے کے لیے محسن حسن خان نے یہی کہا کہ وہ جے پی دتہ کی اس پیش کش کا احترام کرتے ہیں اور اگر کرکٹ سے الوداع ہوئے تو جے پی دتہ کی ہی فلم میں کام کریں گے، یہ ان کا وعدہ ہے۔
پر وقار اور مردانہ وجاہت کے حامل محسن حسن خان نے دسمبر 1986 میں جب کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا تو اس دوران ان کا بمبئی آنا جانا لگا رہتا۔ ایک روز جب وہ بمبئی میں وقتی طور پر رکے ہوئے تھے تو ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف کوئی اور نہیں جے پی دتہ تھے، جنہوں نے محسن حسن خان سے کہا کہ اب تو وہ کرکٹ بھی چھوڑ چکے ہیں اور وقت آگیا ہے کہ وہ اپنا وہ وعدہ پورا کریں جو انہوں نے کم و بیش تین سال پہلے ان سے کیا تھا۔
محسن حسن خان شش و پنج میں تھے، وہیں انہیں اپنے وعدے کا بھی پاس رکھنا تھا، اسی لیے اب ان کے پاس انکار کی گنجائش نہیں تھی۔ پھر بھی انہوں نے راہ فرار اختیار کرنے کی غرض سے کہا کہ وہ اداکاری کر نہیں پائیں گے۔ جس کے جواب میں ہدایتکار جے پی دتہ کا کہنا تھا کہ یہ کام ان پر چھوڑ دیں۔ فلم کو سینیما گھروں میں لگانے سے پہلے وہ اس کے رشز محسن حسن خان کو دکھائیں گے اور اگر محسن حسن خان کو ان کا کام اور اپنی اداکاری ذرا سی بھی پسند نہیں آئی اور کہیں پر بھی انہیں ایسا لگا کہ ان کے کردار کو کسی اور اداکار پر فوقیت دی گئی ہے تو وہ فلم ریل ردی کی ٹوکری میں پھینکنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔
بہرحال اب محسن حسن خان مجبور تھے کہ اداکاری تو کرنی ہی پڑے گی۔ ہدایت کار جے پی دتہ عموماً بڑے بجٹ کی بڑی سٹار کاسٹ والی فلمیں بنانے کے لیے مشہور تھے اور جب انہوں نے 1987 کے اختتامی عرصے میں ’بٹوارہ‘ بنانے کی تیاری کی تو اس تخلیق میں ونود کھنہ، دھرمیندر، امریش پوری، شمی کپور، ڈمپل کپاڈیہ، آشا پاریکھ، امرتا سنگھ، کلبھوشن کھربندرا، پونم ڈھلون اور امرتا سنگھ شامل تھیں۔
اتنی بڑی ہیوی ویٹ کاسٹ کے سامنے محسن حسن خان کے لیے پہلی بار کیمرے کا سامنا کسی بڑی آزمائش سے کم نہیں تھا۔ یہاں رہنمائی کے لیے جے پی دتہ موجود تھے، جنہوں نے کسی ایکشن یا جذباتی منظر کو عکس بند کرانے سے پہلے محسن حسن خان سے کہا کہ یاد کریں کوئی ایسا میچ جس میں سنسنی خیز لمحات آئے ہوں، وہ لمحہ ذہن نشین کریں، جس میں ماحول رنجیدہ ہو، بس انہی لمحات کو ذہن میں رکھ کر منظر عکس بند کروائیں۔
ٹھاکر راجیندر سنگھ کے کردار میں محسن حسن خان نے اپنے کرکٹ کے تمام تر خوشی اور غم کے لمحات کو یاد کرکے حقیقت کا رنگ بھر دیا۔
’بٹوارہ‘ جب 14جولائی 1989کو نمائش پذیر ہوئی تو کوئی بھی محسن حسن خان کی اداکاری دیکھ کر اندازہ نہیں لگاسکتا تھا کہ یہ ان کی پہلی فلم ہے۔ ہر جانب چرچا تھا تو محسن حسن خان کی اداکاری کا، فلم بین تو اس لیے بھی سینیما گھروں کا رخ کرنے آئے کہ یہ کسی بھی پاکستانی کرکٹر کی پہلی بالی وڈ فلم تھی اور محسن حسن خان کی اداکاری دیکھ کر انہیں مایوسی نہیں ہوئی۔
اگلے تین برسوں کے دوران محسن حسن خان کی جس فلم نے سینیما گھروں میں کمائی کے کئی نئے ریکارڈ بنائے، وہ بلاشبہ ہدایت کار مہیش بھٹ کی ’ساتھی‘ تھی۔ جس کے گیتوں، کہانی، ہدایت کاری اور پھر سب سے بڑھ کر محسن اور ادتیہ پنچولی کی جاندار اداکاری نے اسے بلاک بلاسٹر فلم بنادیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس دوران محسن حسن خان کی فلمیں ’گناہ گار کون‘، ’پرتی کار‘، ’فتح‘ اور ’لاٹ صاحب‘ بھی ریلیز ہوئیں لیکن یہ اس قدر کامیاب نہ ہوسکیں۔ اس حوالے سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ فلموں کے انتخاب میں محسن حسن خان نے کچھ جلد بازی کردی اور جن فلموں میں ان کے متاثر کن کردار تھے، وہ قطع و برید کی نذر جان بوجھ کر کردیے گئے۔
محسن حسن خان ممکن ہے کہ بھارتی فلموں میں مزید کام کرتے لیکن اسی دوران انتہا پسند تنظیموں نے آج کی طرح اس وقت بھی پاکستانی فن کاروں کے بالی وڈ میں کام کرنے پر واویلا مچایا جبھی محسن حسن خان کا بالی وڈ کا یہ سفر ادھورا رہ گیا۔
محسن خان نے انیل کپور، راکھی، مادھوری ڈکشٹ، ریکھا، سنجے دت، جیکی شروف اور شبانہ اعظمی کے ساتھ بھی اداکاری کی، جو ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کے معترف رہے۔
محسن حسن خان کی شہرت اور اداکاری سے پاکستانی ہدایت کاروں نے بھی استفادہ کیا۔ جبھی ان کی پہلی ہی پاکستانی فلم ’ہاتھی میرے ساتھی‘ نے کھڑکی توڑ کامیابی حاصل کی۔ جس کے بعد دوسرے پاکستانی ہدایت کاروں نے بھی محسن حسن خان کو کئی تخلیقات میں آزمایا۔ ان میں سید نور کی ’گھونگھٹ‘ اور شمیم آرا کی ’بیٹا‘ بہترین فلموں میں شمار ہوئیں۔
پاکستانی فلموں میں جب موضوعات اور کرداروں کی یکسانیت آنے لگی تو محسن حسن خان نے خاموشی سے فلموں سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور پھر دھیرے دھیرے پھر سے اسی شعبے یعنی کرکٹ کی جانب لوٹ آئے، جس کے ذریعے انہیں بھارتی اور پھر پاکستانی فلموں میں جگہ بنانے کا موقع ملا تھا۔ محسن حسن خان کی پہچان آج سابق کرکٹر کی طرح اداکار کی بھی ہے اور انہیں اس نئے شعبے میں لانے کا باعث ان کا وہ وعدہ بن گیا جو انہوں نے جے پی دتہ سے جان چھڑانے کے لیے کیا تھا۔