ایک آمر مطلق کے طور پر شمالی کوریا پر اپنی حکومت کے ابتدائی دس برسوں میں کم جونگ اُن کا سنگین ہلاکتوں کے اس ریکارڈ تک پہنچنا ابھی باقی ہے جو ان کے دادا کم ال سنگ یا والد کم جونگ ال نے قائم کیے۔
یہ وہ دو ظالم حکمران تھے، جنہوں نے ان سے پہلے شمالی کوریا میں اپنی دہشت جمائے رکھی۔
2013 میں اپنے چچا اور 2017 میں سوتیلے بھائی سمیت کم جونگ اُن نے ابھی تک ذاتی طور پر جن لوگوں کے قتل کا حکم دیا، ان کی تعداد ممکنہ طور پر سینکڑوں میں ہے۔
مگر 17 دسمبر 2011 کو والد کی موت کے بعد شروع ہونے والے ان کے اقتدار کے دس سال اس کمیونسٹ ملک میں رہنے والے لوگوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے ہیں۔
کرونا (کورونا) وائرس کے دوران چین کی شمالی سرحد کی بندش سے یہ ملک باقی دنیا سے مزید کٹ کر رہ گیا اور یہاں سے بھاگنے کے لیے بے چین افراد کا راستہ بھی مسدود ہو گیا، جیسا کہ اقوام متحدہ نے رپورٹ کیا۔ دریں اثنا خوراک کی غیر یقینی صورت حال جاری ہے جس کا مطلب ہے کہ ’بچوں کی ایک پوری نسل‘ غذائی کمی کا شکار ہے۔
کم جونگ اُن کے دور حکومت میں ناکافی اور غذائیت سے عاری خوراک کی وجہ سے اسہال اور نمونیا جیسی بیماریوں کا شکار ہو کر مرنے والوں کے ٹھوس اعدادوشمار بتانا مشکل ہے، لیکن کوریا کی تاریخ کے ایک محقق کے طور پر مجھے یقین ہے کہ آئندہ سال جنوری میں 38 برس کے ہونے والے نوجوان ڈکٹیٹر اپنے دو خاندانی پیش روؤں کی بھیانک ہلاکتوں کو بھی پیچھے چھوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مصائب کے پہاڑ تلے دبی تین نسلیں
کم جونگ اُن کے اقتدار کا پہلا عشرہ انہی مظالم اور ناکام پالیسیوں کا تسلسل ہے، جس نے شمالی کوریا کے باشندوں کو گذشتہ 70 سال سے خوف اور بھوک کے خطرے سے دوچار رکھا ہوا ہے۔
شمالی کوریا کے قیام کے محض دو سال بعد 1950 میں کم جونگ اُن کے دادا کی شروع کردہ کوریائی جنگ چار ملین سے زائد انسانوں کو نگل چکی ہے، جس میں زیادہ بڑی تعداد شمالی کوریا کے عام شہریوں کی تھی، جو جنوبی کوریا کے دفاع کے لیے آنے والی اقوام متحدہ کی اتحادی افواج کے ہاتھوں مارے گئے۔
1953کی جنگ بندی سے جب کم ال سنگ کی جنوبی کوریا پر زبردستی قبضہ کرنے کی مہم ناکام بنا دی گئی تو انہوں نے اپنی توجہ کا رخ سوویت اور چین نواز پارٹی عہدے داروں کو فارغ کرنے کی طرف کر لیا، جنہوں نے ان پر تنقید کی جرات کی تھی۔ شمالی کوریا کے رہنما نے قتل و غارت کا سلسلہ جاری رکھا جس میں پارٹی کے ہزاروں عہدے دار جان سے ہاتھ دھو بیٹھے یا ورکرز پارٹی آف کوریا سے نکال دیے گئے۔
ان کے بیٹے کم جونگ ال کو جولائی 1994 میں اقتدار وراثت میں ملا اور ان کے عہد میں تباہ کن قحط سے 20 لاکھ سے زائد لوگ بھوک کے سبب لقمہ اجل بن گئے۔
کم جونگ ال نے امداد کی اپیل کی لیکن اس سے خوراک کا بندوست کرنے کے بجائے بیشتر حصہ شمالی کوریا کی فوج پر لگا دیا۔ 1997 میں قحط کے عروج کے دوران امریکی محکمہ خارجہ نے شمالی کوریا کے عسکری بجٹ کا تخمینہ چھ ارب امریکی ڈالر لگایا تھا۔ بدحالی کے اس عرصے میں کم نے محض اپنے میزائل پروگراموں پر سالانہ ایک ارب ڈالر اور لگژری سامان کی درآمد پر 60 کروڑ ڈالر سے زائد رقم خرچ کی۔
اپنے آنجہانی والد کا مقبرہ تعمیر کرنے کے لیے انہوں نے کامیابی سے 80 کروڑ ڈالر کی رقم کا بندوست کرلیا، جہاں دسمبر 2011 میں مشتبہ طور پر دل کے دورے سے دم توڑنے کے بعد خود انہیں بھی دفن کر دیا گیا۔
اگر ہر سال وہ اپنی دولت میں سے محض دو ملین ڈالر اناج پر خرچ کرتے اور اس کی منصفانہ تقسیم کا انتظام کرتے تو ایک بھی شخص بھوک سے نہ مرتا۔ اس کے بجائے جیسا کہ شمالی کوریا میں انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کی 2014 میں آنے والی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا کم جونگ ال نے ’دانستہ طور پر طویل فاقہ کشی کے غیر انسانی فعل‘ کا ارتکاب کیا۔
یہی دعویٰ کم جونگ اُن کے ایک عشرے پر محیط دور اقتدار کے بارے میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ قحط جیسی صورت حال کا مشاہدہ 2010 کی دہائی کے وسط میں کیا گیا اور وبائی مرض کے دوران پھر یہی چیز دیکھنے کو ملی۔
جنوری 2020 میں کِم کی جانب سے چین کے ساتھ سرحد بند کرنے سے پہلے ہی شمالی کوریا میں 2018 اور 2019 کے دوران تقریباً ساڑھے 13 لاکھ میٹرک ٹن خوراک کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ ان کی طرف سے اس کا حل امداد پر انحصار اور اکتوبر میں اپنے لوگوں کو 2025 تک تھوڑی مقدار میں کھانا بتایا گیا تھا۔ دریں اثنا اپنے اقتدار کے دس برسوں کے دوران کم نے شمالی کوریا کے جے ڈی پی کے ایک چوتھائی حصے کا رخ فوج کی طرف موڑ دیا۔
کم جونگ اُن کے دور میں لوگوں کا دائمی بھوک سے بچنا مزید مشکل ہو گیا ہے۔ کم جونگ ال کی طرف سے رکاوٹوں کے باوجود 1990 کی دہائی میں قحط کے دوران شمالی کوریا کے بہت سے لوگ خوراک کی تلاش میں چین فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
کم جونگ اُن کی حکومت کے پہلے سال میں جنوبی کوریا فرار ہونے والوں کی تعداد گذشتہ سال کے مقابلے میں نصف ہو کر تقریباً پندرہ سو رہ گئی۔
کم کے عہد حکومت میں گذشتہ دو سال سے لاک ڈاؤن کے دوران سرحد عبور کرنا مزید مشکل ہو گیا ہے۔ متوقع طور پر 2021 میں یہ تعداد 100 سے بھی کافی کم رہ گئی ہو گی۔
ایک جان لیوا وراثت کا تسلسل
دسمبر 2012 میں جب کم نے اقتدار سنبھالا تو میں نے پیش گوئی کی تھی کہ ان کی حکمرانی میں اصلاحات نافذ ہوں گی اور نہ اقتدار کی تقسیم کا سراغ ملے گا، بلکہ ملک کے اندر انتہائی جبر اور پڑوسیوں کے خلاف سٹریٹیجک حملوں کی فضا قائم ہو گی۔
افسوس کہ یہ اندازے درست ثابت ہوئے۔ گذشتہ عشرے میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا تسلسل اور میزائل پروگراموں میں نئی پیش رفت دیکھنے کو ملی، جس کی بنیاد کم کے ظالم خاندان نے رکھی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شمالی کوریا نے گذشتہ دس برسوں میں 130 سے زائد میزائل داغے جن میں تین بین البراعظمی بیلسٹک میزائل دھماکے بھی شامل تھے۔ چار نیوکلیئر تجربات میں سے آخری 2017 کے دوران تھرمونیوکلئیر بم تھا۔
یہ مہلک ہتھیار امریکہ کو جوہری جنگ کی دھمکی دینے کے لیے اپنی منشا کے مطابق بنائے گئے ہیں، جس سے کم جونگ اُن نے امن کے امکانات مزید غیر یقینی بنا دئیے۔ اس طرح واشنگٹن کو مجبور کیا گیا کہ وہ جنوبی کوریا سے امریکی فوجی اور سٹریٹجک ہتھیار واپس لے جائے جیسا کہ اگست میں کم کی بہن کم یو جونگ نے مطالبہ کیا تھا۔
کم جونگ اُن کا بظاہر ہدف واشنگٹن کے دیرینہ غیر جوہری اتحادی جنوبی کوریا کو اپنی جوہری طاقت سے کمزور کرنا ہے تاکہ وہ ’عظیم جوشے انقلاب‘ یعنی جنوبی حصے کو اپنے اندر شامل کرکے جزیرہ نما کوریا کو شمالی کوریا کی شرائط پر متحد کرنے کے اپنے ’عظیم قومی فریضے‘ کو سر انجام دے سکے۔
ایک جوہری جنگ چاہے محدود ہی کیوں نہ ہو وہ لاکھوں کی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکت کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ ایک خوفناک قدم ہے جو کم ال سنگ اور کم جونگ ال کی قیادت میں پہلے ہی اٹھایا جا چکا ہے۔ کم جونگ اُن کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے امریکہ سمیت بیرونی دنیا پر بہت بڑی تباہی مسلط کرنے کی اضافی صلاحیت پیدا کرلی ہے۔
یہ مضمون سب سے پہلے دی کنورسیشن میں شائع ہوا تھا، جسے اجازت سے یہاں شائع کیا گیا۔
اس مضمون کے مصنف سنگ یون لی ہیں، جو امریکی ریاست میساچوسٹس میں واقع ٹفٹس یونیورسٹی میں کورین سٹیڈیز کے پروفیسر ہیں۔