افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ آج اس دور میں کوئی ماں باپ کی گالی دے تو ہم اس کو جان سے مارنے پہ تل جاتے ہیں اور اگر وہی والدین جب اولاد کے کسی غلط کام پر اس کو ڈانٹیں یا غصہ کریں تو بعض اوقات اولاد نافرمانی پر اتر آتی ہے۔
وہ ماں باپ کے آگے نہ صرف اونچی آواز میں بولنے لگتی ہے بلکہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے لگتی ہے۔ مثال کے طور پر آج کی سیاست کو ہی دیکھ لیں۔
اگر ایک پارٹی کسی دوسری پارٹی کو اس کی خامیوں پر تنقید کا نشانہ بناتی ہے تو بدلے میں اس سے بھی سخت جواب آتا ہے کہ ہم ایسے نہیں تم ایسے ہو بس پھر الزام تراشی کی تجارت شروع ہوجاتی ہے۔
بھلے وہ الزام ثابت ہی نہ ہوں پھر نوبت ایک دوسرے کی کردار کشی تک پہنچ جاتی ہے۔ خود اپنے لیے بہترین وکیل کی طرح اپنا دفاع کرنے لگتے ہیں۔
دنیا میں سیاست دان ہوں، حکمران ہوں یا عام انسان ان کا اصل حسن ان کی قوت برداشت ہوتی ہے۔ مگر اب اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں قوت برداشت نام کی چیز ختم ہوتی جا رہی ہے۔
وقت اس معصوم عوام کو دکھاتا ہے کہ وہی سیاسی حریف اپنے مفاد کے لیے پھر سے ایک ہو جاتے ہیں۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کی پارٹی ہچکولے لے رہی ہے تو وہ اس کو چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کر لیتے ہیں۔
اصل میں نہ تو ان کا کوئی نظریہ ہوتا ہے اور نہ ہی خدمت خلق سے کوئی تعلق۔ ان کا تعلق صرف اپنی ذات تک محدود ہوتا ہے۔ اور جب یہ اپنے مقصد کو پا لیتے ہیں تو عوام کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
وہی عوام جن سے ووٹ مانگنے ان کے گھروں کے چکر لگاتے نہ رات دیکھتے ہیں نہ دن۔
جب ووٹ حاصل کرکے اقتدار میں آتے ہیں تو وہی عوام ان کے انتظار میں لائنوں میں کھڑی رہتی ہے مگر صاحب اقتدار اور عہدے داروں کے پاس ان کو ملنے یا ان کے مسائل سننے کا وقت نہیں ہوتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عوام کے ووٹوں سے ہی وہ اس مقام تک پہنچتے ہیں اور پھر اسی عوام کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔
عوام رُل رہی ہوتی ہے مگر نمائندوں کے بچے ملک سے باہر اعلی تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ جب ان کے نمائندوں پر مشکل آتی ہے یہ پھر اسی عوام کا سہارا لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔
تب یہ عوام کو گلا پھاڑ پھاڑ کر یقین دلاتے ہیں کہ ہم اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں رکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ اور آفرین ہے اس عوام کے ان کا پھر اعتبار کر لیتی ہے اور ان کے حق میں نعرے لگانے لگتے ہیں۔
کئی تو اس غریب عوام سے اس کی غربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دو ہزار روپے میں ووٹ خرید لیتے ہیں۔
یہی مجبور عوام پھر اپنے جائز حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی ہمت کھو دیتی ہے۔