اسلامی جمہوریہ ایران نے جمعے کو کمانڈر قاسم سلیمانی کی موت کی یادگاری تقریبات کا آغاز کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ بھی ان کے قتل کی ‘ذمہ دار‘ ہے۔
جنرل قاسم سلیمانی ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ تھے اور سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی حکومت میں تین جنوری 2020 کو ان کے قتل سے خطے میں ہل چل مچ گئی تھی۔
وہ بغداد میں ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم سے کیے گئے امریکی ڈرون حملے میں اپنے عراقی لیفٹیننٹ ابو مہدی المہندس کے ساتھ مارے گئے تھے۔ امریکہ کی اس کارروائی نے ایران اور اس کے اتحادیوں کو مشتعل کر دیا تھا۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ایران کی وزارت خارجہ نے قاسم سلیمانی کے قتل کی دوسری برسی کے موقع پر ٹوئٹر پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ اس قتل کی بین الاقوامی حتمی ذمہ داری امریکی حکومت پر ہے۔
صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے حوالے سے کہا گیا کہ بلاشبہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت میں امریکہ کی مجرمانہ کارروائی ایک ’دہشت گردانہ حملے‘ کا واضح اظہار ہے، جسے اس وقت کی امریکی حکومت اور وائٹ ہاؤس نے منظم انداز میں انجام دیا تھا، جس کے لیے وہ اب ذمہ دار ہیں۔
قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے پانچ دن بعد ایران نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے عراق میں عین الاسد میں امریکی فضائی اڈے اور شمال میں اربیل کے قریب ایک اور فضائی اڈے پر میزائل داغے تھے۔
ان حملوں میں کوئی امریکی فوجی ہلاک نہیں ہوا لیکن واشنگٹن نے کہا کہ دھماکوں سے درجنوں افراد کو دماغی چوٹیں آئیں۔
ٹرمپ نے اس وقت کہا تھا کہ ڈرون حملہ عراق میں امریکی مفادات پر حملوں کے جواب میں کیا گیا ہے، انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس طرح کے حملے جاری رہے تو اس کا ذمہ دار ایران ہوگا۔
وزارت خارجہ کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب ایران نے جمعے کو سلیمانی کے قتل کی یاد میں ہفتے بھر کی سرگرمیاں شروع کرنے کی تیاری کی ہے۔
زیادہ تفصیل بتائے بغیر حکام کا کہنا ہے کہ مرکزی تقریب پیر کو منعقد کی جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ سات جنوری کو ’ایران کی میزائل صلاحیتوں‘ کا مظاہرہ کیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اے ایف پی کے مطابق ایرانی حکام نے بار بار عہد کیا ہے کہ سلیمانی کے قتل کا بدلہ لیا جائے گا۔
ان کے قتل کی پہلی برسی کے موقع پر عدلیہ کے اس وقت کے سربراہ ابراہیم رئیسی جو اب ایران کے صدر ہیں، نے خبردار کیا کہ ٹرمپ بھی ’انصاف سے بالاتر نہیں‘ ہیں اور قاسم سلیمانی کے قاتل ’دنیا میں کہیں بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔‘
سابق امریکی صدر کے دور اقتدار میں واشنگٹن اور تہران کے درمیان کشیدگی اب تک کی بلند ترین سطح پر تھی۔
2018 میں ڈونلڈ ٹرمپ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 کے جوہری معاہدے سے الگ ہو گئے تھے اور تہران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی تھی۔ دونوں ممالک کم از کم دو مواقع پر براہ راست فوجی تصادم کے قریب پہنچ گئے تھے۔