امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور روسی صدر ولادی میر پوتن کے درمیان یوکرین کی سرحد پر روسی فوجیوں کی موجودگی پر سخت بات چیت کے بعد دونوں فریقوں کا اصرار ہے کہ وہ پرامید ہیں کہ جنوری میں ہونے والے سفارتی مذاکرات کے دوران کشیدگی میں کمی کا راستہ نکل سکتا ہے۔
جنیوا میں سینیئر امریکی اور روسی حکام کی ملاقات سے قبل دو ہفتے سے بھی کم وقت باقی ہے اور خلیج گہری ہے جب کہ بحران سے نکلنے کے امکانات کے حوالے سے بھی کئی پیچیدگیاں موجود ہیں۔
صدر جو بائیڈن نے جمعے کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایک دن پہلے ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت میں پوتن کو مشورہ دیا کہ آئندہ بات چیت صرف اس صورت میں سود مند ثابت ہو سکتی ہے جب روسی رہنما ’کشیدگی میں کمی لائیں اسے بڑھائیں نہیں۔‘
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ انہوں نے پوتن پر یہ بھی واضح کرنے کی کوشش کی کہ اگر روس نے یوکرین پر مزید حملہ کیا تو امریکہ اور اتحادی روس پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے صدر پوتن پر واضح کر دیا ہے کہ اگر انہوں نے یوکرین کی جانب مزید پیش قدمی کی تو ہم پابندیاں عائد کر دیں گے۔ ہم نیٹو اتحادیوں کے ساتھ یورپ میں اپنی موجودگی میں اضافہ کر دیں گے۔‘
دریں اثنا، بائیڈن کی قومی سلامتی کی ٹیم نے جمعہ کو اپنی توجہ جنیوا مذاکرات کی تیاری کی طرف مبذول کر دی ہے جو نو اور 10 جنوری کو طے ہیں۔ مذاکرات میں روس کی جانب سے یوکرین کے ساتھ سرحد پر تقریباً ایک لاکھ فوجی اکٹھے کرنے کا معاملہ زیر غور آئے گا۔
جنیوا مذاکرات جن کی قیادت امریکی محکمہ خارجہ کے اعلیٰ حکام کریں گے، کے بعد روس-نیٹو کونسل کے مذاکرات اور یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم کا اجلاس ہوگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صدر بائیڈن اتوار کو یوکرین کے صدر ولادی میر زیلینسکی سے فون پر بات کرنے والے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق دونوں رہنما آئندہ سفارتی مصروفیات کی تیاریوں کا جائزہ لیں گے۔
ان حالات میں کہ جب صدر بائیڈن نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ ایسی پابندیوں کے لیے تیار ہیں جن کا اثر پورے روس پر ہوگا، کریملن کے حکام نے بھی پابندیوں کو ’زبردست غلطی‘ قرار دیتے ہوئے بائیڈن کو کیے گئے انتباہ کو مزید سخت کر دیا ہے جس سے پہلے ہی سے تناؤ کا شکار امریکہ روس تعلقات پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہوں گے۔
صدر پوتن کے ایک اعلیٰ معاون نے جمعے کو پھر کہا ہے کہ روس سلامتی کی تحریری ضمانتوں کے مطالبے پر قائم ہے۔ ماسکو چاہتا ہے کہ اس کو ضابطہ بنایا جائے کہ نیٹو کی آئندہ کسی بھی توسیع میں یوکرین اور دیگر سابق سوویت ممالک کو شامل نہ کیا جائے۔ روس کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ نیٹو اتحاد روس کے پڑوسی ملکوں میں موجود وہ ہتھیار ہٹا لے جو حملے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے سرکاری خبر رساں ادارے ریا نوووستی کو بتایا ہے کہ ’ہم اپنے اقدامات کو نہ ختم ہونے والی بات چیت میں غرق نہیں ہونے دیں گے۔ اگر مناسب وقت میں کوئی تعمیری جواب نہیں آتا ہے اور مغرب اپنا جارحانہ رویہ برقرار رکھتا ہے تو روس کو سٹریٹیجک توازن برقرار رکھنے اور اپنی سلامتی کو لاحق ناقابل قبول خطرات کو دور کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے پڑیں گے۔‘