روس کی جانب سے یوکرین کے ساتھ اپنی سرحد پر فوجیوں کی تعداد بڑھانے کے بعد یورپی اتحاد کے مشترکہ رد عمل میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن آج (جمعرات) کو اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوتن کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کریں گے۔
اس سے قبل دونوں رہنما رواں ماہ کے آغاز میں ایک ورچوئل ملاقات بھی کرچکے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایملی ہورن نے بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ دونوں رہنما ممالک کے درمیان آئندہ سکیورٹی مذاکرات اور یورپ میں کشیدہ صورت حال سمیت متعدد موضوعات پر تبادلہ خیال کریں گے۔
وائٹ ہاؤس نے بتایا کہ ’یہ کال سہ پہر ساڑھے تین بجے ہوگی۔‘
ترجمان ایملی ہورن نے کہا کہ جو بائیڈن نے یوکرین سرحد کی صورت حال کے بارے میں یورپ کے رہنماؤں سے بات کی ہے جبکہ بائیڈن انتظامیہ کے حکام نیٹو، یورپی یونین اور یورپ میں سکیورٹی اور تعاون کی تنظیم کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں۔
روس نے 2014 میں یوکرین کے جزیرہ نما علاقے کریمیا پر قبضے اور مشرقی یوکرین میں یوکرینی فوجیوں سے لڑنے والے علیحدگی پسندوں کی حمایت کے بعد گذشتہ دو ماہ کے دوران یوکرین کے قریب ہزاروں فوجیوں کو جمع کرکے مغرب کو خوفزدہ کر دیا ہے۔
تاہم روس نے یوکرین پر حملے کی منصوبہ بندی کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے حق حاصل ہے کہ اپنی سرزمین پر جیسے چاہے اپنی فوجوں کو ایک سے دوسری جگہ منتقل کرے۔
ماسکو یہ سوچ کر فکر مند ہے کہ مغرب یوکرین کو دوبارہ مسلح کر رہا ہے اور روس اس بات کی قانونی طور پر ضمانت چاہتا ہے کہ نیٹو کی توسیع نہیں ہوگی اور یوکرین یا دیگر ہمسایہ ممالک میں جارحانہ ہتھیار نصب نہیں کیے جائیں گے۔
بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینیئر عہدیدار کے مطابق حالیہ ہفتوں میں امریکی خدشات میں کمی نہیں آئی۔ دیگر امریکی حکام کا کہنا تھا کہ ہفتے کے آخر میں ایک رپورٹ آئی تھی کہ روس یوکرین کے ساتھ اپنی سرحد سے تقریباً 10 ہزار فوجیوں کو واپس بلا لے گا، لیکن انہوں نے اب تک اس رپورٹ کی حمایت کے لیے بہت کم شواہد دیکھے ہیں۔
ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ ’ہمیں بحران اور کچھ ہفتوں سے روس کے بڑھتے ہوئے فوجیوں کو مد نظر رکھ کر اعلیٰ سطح کی بات چیت کرنی چاہیے تاکہ کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔‘
روئٹرز کے مطابق مذکورہ عہدیدار نے کہا کہ روس کے صدر ولادی میر پوتن نے اپنے امریکی ہم منصب جو بائیڈن سے کال کی درخواست کی۔
انہوں نے بتایا: ’امریکی صدر جو بائیڈن نے سال 2021 کے دوران جب روسی ہم منصب ولادی میر پوتن سے بات کرنے کا کہا تو صدر پوتن نے کہا کہ ہاں، آئیے بات کرتے ہیں اور جب صدر پوتن کہتے ہیں کہ مجھے بیس کو چھونے (امریکہ آنے) اور فون کال کرنے میں دلچسپی ہے تو صدر جو بائیڈن ہاں کہتے ہیں۔‘
امکان ہے کہ جو بائیڈن اس کال کے دوران اس بات کا اعادہ کریں گے کہ امریکہ یوکرین پر حملے کی صورت میں روس کے خلاف فوری اقتصادی کارروائی کرے گا۔ وہ اس صورت حال میں نیٹو کو بھی مضبوط کرے گا۔
تاہم امریکی صدر اس سب کے بجائے براہ راست سفارت کاری پر زور دے رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان ایملی ہورن کے مطابق بائیڈن انتظامیہ یوکرین کے ساتھ ساتھ متعدد نیٹو اتحادیوں سے بھی بات چیت کر رہی ہے اور ان میں وہ اتحادی بھی شامل ہیں، جن کی روس کے ساتھ سرحدیں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک اور عہدیدار نے بتایا کہ بائیڈن ممکنہ طور پر جلد ہی یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی سے بات کریں گے۔
ترجمان کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹینی بلنکن نے بدھ کے روز یوکرینی رہنما سے بات چیت کی اور ’یوکرین کی آزادی کی غیر متزلزل حمایت‘ کا اظہار کیا۔
حکام نے بتایا کہ اس خطے میں مختلف اقسام کے جاسوسی والے طیاروں کی پروازیں عام ہیں۔ امریکی فوجی جاسوس طیارے کی ایک قسم جے ایس ٹی آر ایس نے رواں ہفتے کے اوائل میں پہلی بار یوکرین کی فضائی حدود میں پرواز کی تھی۔
10 جنوری 2022 کو امریکی اور روسی حکام کے درمیان سکیورٹی مذاکرات ہوں گے۔ منگل کو جب امریکی صدر سے پوچھا گیا کہ کیا وہ 10 جنوری2022 کو ولادی میر پوتن سے ملاقات کریں گے تو انہوں نے کہا کہ ’ہم دیکھیں گے۔‘
لیکن ایک عہدیدار نے روئٹرز کو بتایا کہ جوبائیڈن سے اس بات کی توقع نہیں ہے کہ وہ 10 جنوری کے مذاکرات میں شرکت کریں گے یا ولادی میر پوتن سے ملاقات کریں گے۔
روس اور نیٹو کے درمیان بھی 12 جنوری 2022 کو مذاکرات ہوں گے جبکہ13 جنوری کو روس، امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کے درمیان ایک بڑی ملاقات بھی طے ہے۔
ولادی میر پوتن موجودہ کشیدگی کا موازنہ 1962 میں سرد جنگ کے دور کے کیوبا میزائل بحران سے کر رہے ہیں جبکہ امریکہ روس کی جانب سے نیٹو کی توسیع پر پابندیوں اور دیگر کچھ مطالبات کو ناممکنات سمجھتا ہے۔
روئٹرز کے مطابق ایک امریکی عہدیدار نے کہا کہ ولادی میر پوتن اور جو بائیڈن کے درمیان بات چیت میں ایران کے جوہری پروگرام پر جاری مذاکرات سمیت دیگر امور پر بھی تبادلہ خیال متوقع ہے۔