صحت کے متعلق جدید ٹیکنالوجی بنانے کی دعویدار کمپنی تھیرانوس کی سابق چیف ایگزیکٹیو اور فوربز میگزین کے مطابق’دنیا کی سب سے کم عمر خود ساختہ ارب پتی خاتون‘ الزبتھ ہومز پر سرمایہ کاروں کے ساتھ فراڈ کا جرم ثابت ہو گیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق پیر کے روز امریکی ریاست کیلیفورنیا میں 12 اراکین کی جیوری اس نتیجے پر پہنچی کہ تھیرانوس نامی کمپنی، جس کی بنیاد 2003 میں الزبتھ ہومز نے رکھی تھی، نے اپنے سرمایہ کاروں کو یہ کہہ کر دھوکا دیا کہ انہوں نے ایک ایسا آلہ تیار کیا ہے، جو خون کے چند قطروں سے سینکڑوں بیماریوں کا پتہ چلا سکتا ہے۔
الزبتھ ہومز کو سزا سنانے کے لیے ابھی تک کسی تاریخ کی کا اعلان نہیں کیا گیا، تاہم کیس کی مزید سماعت اگلے ہفتے ہوگی۔
الزبتھ ہومز نے 2002 میں جب ان کی عمر 19 سال تھی، سٹینفورڈ یونیورسٹی کو چھوڑ دیا، جہاں انہوں کیمیکل انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لے رکھا تھا۔
سٹینفورڈ یونیورسٹی چھوڑنے کے بعد انہوں نے تھیرانوس نامی کمپنی کی بنیاد رکھی جو اس بات کی دعویدار تھی کہ ان کے تیار کردہ جدید چھوٹے خودکار آلات کی مدد سے خون کے چند قطروں کے سینکڑوں ٹیسٹ بہت تیزی سے کیے جا سکتے ہیں۔
فوربز، انک اور فارچون نامی جریدوں نے الزبتھ ہومز کو اپنے سرورق پر جگہ دی۔ انک میگزین نے ان کی تصویر کے ساتھ’ مستقبل کی سٹیو جابز‘ بھی لکھا تھا۔
سال 2014 میں30 سالہ الزبتھ ہومز اپنے کیریئر کی بلندی پر تھیں اور ان کی بنائی گئی کمپنی کی مالیت نو ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔
کمپنی کے بورڈ میں دو سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجر اور آنجہانی جارج شلٹز، دو سابق وزیر دفاع جنرل جیمز میٹس اور ولیم پیری، امریکی سینیٹ کے سابق ممبر سیم نن اور مالیاتی کمپنی ویلز فرجو کے سابق سی ای او رچرڈ کوواسیوچ شامل تھے۔
اے پی کے مطابق ان کی کمپنی میں میڈیا کی طاقتور شخصیت روپرٹ مرڈوک اور کاروباری شخصیت لیری ایلیسن سمیت متعدد بڑی بڑی شخصیات نے سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔
سال 2015 میں ان کا زوال اس وقت شروع ہوا جب وال سٹریٹ جنرل سے وابستہ صحافی جان کریرو کی تھیرانوس کمپنی کے متعلق تحقیقات شائع ہوئیں۔
کمپنی کے سرمایہ کار اور بورڈ ممبران یہ جان کر حیران رہ گئے کہ تھیرانوس کی بلڈ ٹیسٹنگ ٹیکنالوجی کے نتائج گمراہ کن ہیں۔ مریضوں کو معمولی سیمپلز کی بجائے باقاعدہ خون دینے پر مجبور کیا جاتا اور ٹیسٹوں کے لیے بازار میں پہلے دستیاب ٹیکنالوجی ہی استعمال کی جاتی رہی اور کمپنی اس حقیقت کو چھپانے کے لیے بہت جدوجہد کرتی رہی۔
2015 میں وال سٹریٹ جرنل میں دھماکہ خیز مضامین کی ایک سیریز اور تھیرانوس کے ایک ریگولیٹری آڈٹ کے نتیجے میں کمپنی کی ٹیکنالوجی میں ممکنہ طور پر خطرناک خامیوں کا پردہ فاش ہو گیا جس کے نتیجے میں کمپنی ختم ہوگئی۔
سال2016 میں ہومز لیب ٹیسٹنگ انڈسٹری پر دو سال کی پابندی عائد کردی گئی۔ صحت کے حوالے سے امریکی ادارے ایف ڈی اے کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد مارچ 2018 میں تھیرانوس، ایلزبتھ ہومز اور کاروباری شراکت دار رمیش بلوانی پر سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کی جانب سے ’کھلی دھوکا دہی‘ کا مقدمہ دائر کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اے پی کے مطابق مقدمے میں پیش کیے گئے شواہد سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ ہومز نے مبینہ سودوں کے بارے میں جھوٹ بولا جو تھیرانوس نے فائزر اور امریکی فوج جیسی بڑی دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ کیے تھے۔
انہیں چار الزامات کے تحت ہر ایک کے لیے 20 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے حالانکہ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں زیادہ سے زیادہ سزا ملنے کا امکان نہیں ہے۔
جیوری نے ہولمز کو چار سنگین الزامات سے بری بھی کردیا جس میں ان مریضوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرنے کا الزام بھی شامل ہے جنہوں نے ٹیسٹ کروانے کے لیے پیسے دیئے تھے۔
الزبتھ ہومز نے تھیرانوس کمپنی کی بنیاد رکھتے وقت جو سہانا خواب دیکھا تھا، سال2018 میں دھوکہ دہی کے الزامات لگنے کے بعد وہ ایک ڈراؤنا خواب بن چکا تھا۔
سال 2018 میں ہولمز پر الزام لگتے ہی امریکی محکمہ انصاف نے بڑی ٹیک کمپنیوں کا نام لیے بغیر، جو روزمرہ کی زندگی میں اپنا غلبہ بڑھاتی رہتی ہیں، واضح کیا کہ وہ اس کیس کو ایک مثال بنانے کی امید رکھتے ہیں جس سے سلیکون ویلی کو جھٹکا لگے گا۔
اس مقدمے نے سیلیکون ویلی کی کمپنیوں کی طرف سے استعمال ہونے والے ایک حربے کے نقصانات کو بھی ظاہر کیا، یعنی ’اس وقت تک جھوٹ پیش کریں جب تک آپ اس کو سچ نہیں بنا دیتے۔‘ اس مروجہ رجحان نے گوگل، نیٹ فلکس، فیس بک اور ایپل جیسیی بڑی کمپنیوں کو کھڑا ہونے میں مدد کی ہے۔
نئے کاروبار میں سرمایہ کاروں کی نمائندگی کرنے والے وکیل رچرڈ گرین فیلڈ نے کہا کہ 'میرے خیال میں اس سے کاروباری افراد میں کچھ اور احتیاط پیدا ہوگی۔' انہوں نے مزید کہا کہ 'میں نہیں سمجھتا کہ اس سے بہت سے سرمایہ کاروں کے رویے تبدیل ہوں گے۔ لوگ اب بھی چاند تک پہنچنا چاہتے ہیں۔'
مقدمے میں شرکت کرنے والی سانتا کلارا یونیورسٹی کی قانون کی پروفیسر ایلن کریٹزبرگ نے مشورہ دیا کہ ہولمز کے فیصلے سے سی ای اوز کو یہ پیغام جائے گا کہ حدود سے تجاوز کرنے کے نتائج برآمد ہوں گے۔ دوسری جانب انہوں نے کہا کہ’سرمایہ کار اب بھی پیسے کمانا چاہیں گے، اگر انہیں ایک امید افزا آئیڈیا پیش کیا جائے تو۔ وہ ہمیشہ سونے کی انگوٹھی کے لیے جائیں گے۔‘