امریکی صدر جو بائیڈن کی صدارتی فتح کی تصدیق کو روکنے کی کوشش میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے امریکی کانگریس کی عمارت، کیپیٹل ہل، پر دھاوا بولنے کو آج ایک سال ہوگیا ہے۔ اب تک سات سو سے زیادہ افراد پر وفاقی جرائم کا الزام لگایا جا چکا ہے۔ ان مقدمات کے بارے میں شہ سرخیوں پر بعض جرات مندانہ، بلند آوازیں خبروں میں چھائی رہی ہیں۔
سازشی نظریے کیو اینون کے نام نہاد شامن جیکب چانسلی، جنہوں نے سر پر سینگ سجائے اور سمور دار کھال پہنے ہجوم کی قیادت کی، کو41 ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ جینا رائن نامی خاتون، جو کیپٹل ہل میں بلوائیوں کا حصہ بننے سے قبل نجی جہاز پر واشنگٹن ڈی سی پہنچی تھی اور بعد میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ اس لیے جیل نہیں جائیں گی کیونکہ ان کے ’بال سنہرے ہیں‘ اور ’رنگ سفید‘ ہے، ان کو 60 دن قید کی سزا دی گئی ہے۔ انتہائی دائیں بازو کے مسلح گروہ جیسے ’پراؤڈ بوائز‘ اور ’اوتھ کیپرز‘ کے اراکین کے خلاف مزید پیچیدہ مقدمات کی سماعت جاری ہے۔
لیکن انتہا پسندی پر تحقیق کرنے والوں کے مطابق ہو سکتا ہے کہ یہ تمام مقدمات ان لوگوں کے بارے میں ایک چونکا دینے والی حقیقت کو چھپا رہے ہیں جنہوں نے جمہوری عمل کو روکنے کے لیے اس دن کیپیٹل پر دھاوا بولا۔
جارج واشنگٹن یورنیورسٹی میں انتہاپسندی پر تحقیقی پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹرشیمس ہیوز کے بقول: ’ان لوگوں کی دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ دلچسپ نہیں ہیں۔ آپ کے پاس تعمیراتی کارکن اور یوگا انسٹرکٹر ہیں۔ ان لوگوں کا تعلق امریکی معاشرے کے مختلف حصوں سے ہے۔‘
وہ کہتے ہیں: ’ذرائع ابلاغ نے اوتھ کیپرز اور پراؤڈ بوائز کو بہت زیادہ جگہ دی جو سمجھ میں آتا ہے لیکن ان کی بڑی اکثریت خاصی عامیانہ ہے۔‘
ہیوز محققین کی اس ٹیم کا حصہ ہیں جو چھ جنوری 2021 کو ہونے والے اس حملے سے جڑے ہر کیس پر نظر رکھتے ہوئے اس پر تحقیق کر رہا ہے۔ ان کے مباحثوں میں امریکی معاشرے کے ان مختلف حصوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
انہیں پتہ چلا ہے کہ ان 704 مقدمات میں جن لوگوں پر الزام عائد کیا گئی ان کی اوسط عمر39 سال ہے اور ان میں سے 613 مرد ہیں۔ ان لوگوں کا تعلق 45 ریاستوں کے ساتھ ہے۔ ان میں سے 75 فلوریڈا کے رہائشی ہیں اور 63 کا تعلق ٹیکساس اور پینسلوینیا سے ہے۔ وہ 81 افراد جن پر اب تک فرد جرم عائد کی جا چکی ہے اس سے پہلے فوج کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کی مجموعی تعداد تقریباً 12 فیصد ہے۔
ان لوگوں کے لیے جو امریکہ میں انتہاپسندی پر نظر رکھتے اور اس پر تحقیق کرتے ہیں، اتنی زیادہ تعداد میں لوگوں کا فساد میں حصہ لینا ایک لحاظ سے تشویش کی بات ہے۔
ہیوز کے مطابق: ’یہ لگ بھگ زیادہ تشویش ناک ہے کیونکہ صرف تشویش ناک نہیں۔ ان کا تعلق مخصوص گروپ سے نہیں۔ ان کی عمریں 18 سے 81 سال ہیں۔ ان کا تعلق 45 مختلف ریاستوں سے ہے۔ وہ پورے نقشے پر موجود ہیں۔ انہیں متحد کرنے والا تصور یہ ہے کہ ’ہمیں چوری کو روکنا ہے‘ (الیکشن 2020 کی چوری) لیکن یہ ایک طرح کا ملے جلے انتہاپسندانہ خیالات کا آمیزہ ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں: ’یہ اس بات کا عکاس ہے کہ ہم ملک کے اندر انتہاپسندی میں عمومی طور پر کہاں کھڑے ہیں۔‘
چھ جنوری کو کیپیٹل پر حملے کی تحقیقات قانون کے نفاذ کے لیے وفاقی سطح پر تاریخ کی سب سے بڑی تحقیقات ہیں۔ ملک بھر میں 50 سے زائد فیلڈ دفاتر کے ایف بی آئی ایجنٹ مجرموں کی شناخت اور گرفتاری کے لیے انٹرنیٹ کے ذریعے ملنے والی تقریباً ڈھائی لاکھ اطلاعات، لاکھوں سوشل میڈیا پوسٹس، ویڈیوز اور تصاویر کھنگال رہے ہیں۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی (جی ڈبلیو یو) کے ڈیٹا بیس کے مطابق، 80 فیصد سے زیادہ ملزموں پر ان کے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے ملنے والے شواہد کا استعمال کرتے ہوئے فرد جرم عائد کیا گیا ہے۔
مشی گن میں میکومب کاؤنٹی کے 41 سالہ ٹم لیون باؤنر ان الزامات کی مثال ہیں۔ وفاقی تفتیش کاروں نے کیپیٹل میں تشدد میں ملوث ہونے کی ان کی تصاویر جاری کیں جن میں ان کی دائیں کلائی کے قریب ستارے کا ٹیٹو ہے۔ ویڈیو میں وہ کیپیٹل پولیس افسر کے خلاف کیمیکل سپرے کا استعمال کرتے ہوئے نظر آئے۔
پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ باؤنرنے اس دن فیس بک پوسٹ میں اپنے عمل کا ذکر کیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’انہوں نے پولیس اہلکاروں کو نقصان پہپنچانے کے لیے سپرے کا استعمال کرنا شروع کیا۔‘
نیویارک کے علاقے کارمل سے تعلق رکھنے والے رابرٹ چیپ مین کو ڈیٹنگ ایپ ’بمبل‘ پر میچ ہونے والی ایک خاتون سے اپنی حرکات کے حوالے سے شیخی بھگارنے کے بعد گرفتار کیا گیا۔ چیپ مین نے خاتون کو اپنے پیغام میں لکھا: ’میں نے کیپیٹل پر دھاوا بولا۔ میں سیدھا سٹیچوٹری ہال تک پہنچ گیا۔‘ ان کے ممکنہ پارٹنر نے جواب دیا ’ہم جوڑا نہیں بن سکتے۔‘
مزید سینکڑوں افراد کو ان کی ایسی سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے پکڑا گیا جن سے وہ دھاوے میں ملوث پائے گئے۔ دی انڈپینڈنٹ نے ہنگامے کے دوران کیپیٹل کے اندر اور باہر درجنوں افراد اور بعض اوقات اکٹھے ہونے والے خاندانوں کو دیکھا جن سے چند فٹ کے فاصلے پر تشدد ہو رہا تھا۔
ہیوز کے مطابق اس سے جو ظاہر ہوتا ہے وہ یہ کہ ان لوگوں میں سے اکثر ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ وہ کوئی غلط کام کر رہے ہیں۔
ہیوز کہتے ہیں: ’اگر ان میں سے 80 فیصد اپنے جرائم کو سوشل میڈیا پر بیان کر رہے ہیں تو یہ وجہ سے نہیں کہ وہ برے ہیں بلکہ یہ اس کی وجہ ان کا یہ ماننا ہے کہ وہ محب وطن ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ لوگ جن پر فرد جرم عائد کیا گیا ہے ان کی شخصیت کے معاملے میں ایک بات لازمی طور پر نمایاں ہے، اور وہ یہ ہے کہ ملزمان کی بڑی تعداد نے فوجی تربیت حاصل کر رکھی ہے۔ 704 افراد میں سے 12 افراد ایسے ہیں جن کو فوجی تربیت حاصل ہے، ان میں پانچ حاضر سروس فوجی شامل ہیں اور کم از کم 55 سابق فوجی ہیں۔
اوماہا میں واقع یونیورسٹی آف نبراسکا میں نیشنل کاؤنٹرٹیررازم انوویشن، ٹیکنالوجی اینڈ ایجوکیشن سینٹر (این سی آئی ٹی ای) کی ڈائریکٹرڈاکٹر جینا لیگون کے خیال میں یہ صورت حال خطرے کی گھنٹی ہے۔
ان کے بقول: ’حیرت ہوتی ہے جب آپ اس کا موازنہ عام آبادی میں فوجی تربیت یافتہ افراد کی تعداد سے کرتے ہیں جن کی عمریں وہی ہیں جنہیں گرفتار کیا گیا۔ اس صورت حال کے پیش نظر یہ بھی تشویش ناک ہے وہ افراد جن کی ذمہ داری ہمارے ملک کی حفاظت کرنا ہے انہوں نے بھی اس روز ملک پر ہونے والے حملے کو ان کی اقدار سے مطابقت رکھنے والے حملے کے طور پر دیکھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیر ملکی اثرورسوخ کے حامل پیغامات اور یہاں موجود انتہاپسند گروپس کے بدعنوان رہنما ہمارے اپنے تربیت یافتہ ہتھیاروں کا رخ خود ہماری جانب کرنے میں کامیاب ہو گئے۔‘
ڈاکٹر لیگون جن کا اپنا تعلق فوجی خاندان کے ساتھ ہے، ایک تحقیقی مرکز چلاتی ہیں جو امریکہ کو درپیش انتہاپسندانہ خطرات کا مطالعہ کرتا ہے، جس میں ملک کے اندر موجود انتہاپسندی بھی شامل ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ سابق فوجیوں کو کیپیٹل پر حملے میں ’شامل کرنے کے لیے خاص طور پر ہدف‘ بنایا گیا۔ ان میں سے زیادہ تر کو فوج چھوڑے ہوئے پانچ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔
ان کے مطابق: ’یہ وقت تھا جب وہ کمزور تھے۔ ان کی شناخت میں بڑے گروپ (جیسے فوج) کے ساتھ جڑے ہونا نہیں تھا۔ ان کے احساسات کو اس حد تک استعمال کیا گیا کہ ان کے غصے کا رخ مقتدر شخصیات اور ہماری اپنی حکومت کی علامات کی طرف ہو جائے۔‘
پینٹاگون نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ فوج میں شدت پسندی کے اضافے سے نمٹنے کے لیے فوجیوں سے پالیسیوں کو اپ ڈیٹ کر رہا ہے۔ ایسا چھ جنوری کے ہجوم میں حاضر سروس اور سابق فوجیوں کی بڑی تعداد میں موجودگی کے براہ راست ردعمل میں کیا جا رہا ہے۔ نئے رہنما اصولوں میں سوشل میڈیا کے استعمال کے قواعد کے معاملے میں ’لائیکنگ‘ اور انتہاپسند مواد کو دوبارہ پوسٹ کرنے کے عمل کو اس مقصد کی وکالت کے طور پر دیکھا جائے گا۔
لیکن ڈاکٹر لیگون کے مطابق ابھی بھی سابقہ فوجیوں اور اس واقعے میں ملوث افراد کی تعداد میں ایک بڑا فرق ہے۔
وہ کہتی ہیں: ’یہ گروپس انہیں بھرتی کرنے کے لیے کئی قسم کے حربے استعمال کرتے ہیں، اس حوالے سے ان کی تربیت کے ساتھ اس معاملے میں تسلسل کے ساتھ ان کی معاونت کرنا ضروری ہے، ان کو بتانا کہ آن لائن موجود کس قسم کی معلومات پر بھروسہ کیا جائے۔ انہیں یہ سمجھنے میں مدد کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کی حاظر سروس اقدار اور ایسے گروپوں کے اقدار میں کتنا فرق ہے۔ ایسا کرنے کی کئی سال تک ضرورت ہے، نہ کہ بس فوج میں آخری ہفتوں میں ہی۔‘
ہیوز کی طرح لیگون بھی اس بات کو تشویش کے ساتھ دیکھتی ہیں کہ عام لوگوں کی بڑی تعداد نے چھ جنوری کو غیر معمولی کام کرنے کا فیصلہ کیا۔
’ٹھیک اس وقت امریکہ میں کیا ہو رہا ہے۔ ہم ہمیشہ عام لوگوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ یہ عمل پانی کی طرح ہے جو انتہا پسندوں کو زیادہ تیزی سے تیر کر اپنے ہدف کی طرف جانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اور اگر وہ آپ کے ساتھ متفق ہوں تو دھارا آپ کے ساتھ ساتھ بہہ رہا ہوتا ہے، خواہ انہوں نے تشدد کی توثیق نہ بھی کی ہو۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ چھ جنوری کو بڑے ہجوم نے اسی ہجوم کا حصہ زیادہ انتہا پسندوں کو اس عمل کی ’خاموش رضامندی‘ سے اجازت دی۔
ان کے بقول: ’وہ خود کبھی تشدد میں ملوث نہیں ہوسکتے ہیں لیکن یہ کہنا کہ ’جو آپ کر رہے ہیں وہ ہمیں پسند ہے‘، اس سے انہیں یہ نفسیاتی اجازت ملتی ہے کہ وہ اس طرح کا خوفناک برتاؤ کریں۔ میں نے امریکہ میں ایسا پہلے کبھی کھلے عام نہیں دیکھا۔‘
تاہم چھ جنوری کے مقدمے کا مستقبل اس سے مختلف ہو سکتا ہے جو اس سے پہلے دیکھا گیا ہے۔ ہیوز کا کہنا ہے کہ مثال کے طور پر محکمہ انصاف معمولی اور بدعنوانی کے جرائم کے مقدموں کو پہلے نمٹا کر راہ ہموار کر رہا ہے تاکہ وہ منظم گروہوں کے حوالے سے زیادہ پیچیدہ مقدمات کے لیے وسائل وقف کر سکیں۔
ہیوز کا کہنا ہے کہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا چھ جنوری جیسے واقعات کو دہرایا جائے گا۔
انہوں نے کہا: ’چھ جنوری ایک مکمل طوفان تھا کیوں کہ قومی دھارے کے بڑے سیاست دان سازشی نظریات کی حوصلہ افزائی کر ریے تھے۔ یہاں سوشل میڈیا ایک ایکو چیمبر کی طرح کام کر رہا تھا۔ داخلی انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے پولیس تیار نہیں تھی اور ایف بی آئی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے جو کچھ دیکھ رہے تھے وہ اس سے نمٹنے سے قاصر تھے۔‘
’اگر آپ بعد میں ہونے والی ریلیوں کو دیکھیں، جیسے 20 جنوری یا ’جسٹس فارسکس جنوری‘ ریلی، تو آپ کو اب اس قسم کا ہجوم نہیں ملے گا۔
میزوری سے تعلق رکھنے والے ایک ’سوکر ڈیڈ‘ اب جانتے ہیں کہ وہ کس چیز میں شامل ہو رہے ہیں، اور اب اس طرح کی کسی ریلی میں نہیں جائیں گے۔‘
© The Independent