سکیورٹی رپورٹ: انتہاپسندی، دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے

گذشتہ سال پرتشدد واقعات میں 2020 کی نسبت کمی واقعی ہوئی، لیکن ان واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں 21 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

کوئٹہ میں 30 دسمبر 2021 کو سرینا ہوٹل کے باہر ایک بم دھماکے میں چار افراد ہلاک ہوئے (اے ایف پی)

پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں سال2021 میں 2020 کے مقابلے میں 42 فیصد اضافہ ہوا ہے جن میں پانچ خود کش دھماکے بھی شامل ہیں۔

ان حملوں میں مجموعی طور پر 335 جانیں گئیں اور555 لوگ زخمی ہوئے۔ اگر ہلاکتوں کا موازنہ کیا جائے تو یہ سال2020 کے مقابلے میں 52 فیصد زیادہ بنتی ہیں۔

یہ اعداد و شمار پاکستان کے ممتاز سکیورٹی تھنک ٹینک پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے ’پاکستان سکیورٹی رپورٹ 2021‘ میں جاری کیے ہیں۔ یہ ادارہ گذشتہ 18سال سے پاکستان میں تبدیل ہوتے ہوئی داخلی سلامتی کے منظر نامے پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان، مقامی طالبان گروہوں اور دولت اسلامیہ خراسان وغیرہ کی جانب سے مجموعی طور پر 128 دہشت گرد حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں 236 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ سال 2020 میں ان حملوں کی تعداد 95 تھی۔ جبکہ گذشتہ سال میں مختلف بلوچ، سندھی قوم پرست اور باغی گروہوں کے 77 حملوں کے نتیجے میں 97 افراد ہلاک اور 255 زخمی ہو ئے جبکہ سال2020 میں ان حملوں کی تعداد 44 تھی۔ جبکہ گذشتہ سال فرقہ وارانہ دہشت گردی کے دو حملے ہوئے جن میں 22 افراد ہلاک ہو گئے۔

گذشتہ سال سکیورٹی ایجنسیوں کے لیے بھی 2020 کے مقابلے پر بھاری رہا۔ مجموعی طور پر ان کی 177 ہلاکتیں اور 218 افراد زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں سے 65 کا تعلق پاک فوج، 53 کا پولیس، 48 کا ایف سی، چھ کا لیوی اور چار کا دیگر پیرا ملٹری فورسز اور ایک کا رینجرز سے تھا۔ ان حملوں میں 126عام شہریوں کی جانیں بھی گئیں اور328 زخمی بھی ہوئے۔ انہی حملوں میں 32 جنگجو مارے گئے اور ان میں سے 9زخمی بھی ہوئے۔ گزشتہ سال دہشت گردوں نے گھات لگا کر سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا۔ 207 کل حملوں میں سے 137 کا نشانہ سکیورٹی فورسز ہی تھیں جو کل حملوں کا 66 فیصد بنتی ہیں۔

اسی طرح دہشت گردوں کے نشانہ حکومتی حمایت یافتہ قبائلی اور امن کمیٹیوں کے افراد، پولیو ورکروں اور ان کے سکیورٹی پر معمور پولیس والے بھی بنے۔ بلوچستان میں غیر بلوچوں پر پانچ حملے ہوئے جن میں 12 افراد مارے گئے۔ سی پیک پر معمور چینی کارکنوں پر چار حملوں میں 17 ہلاک اور 34 زخمی ہوئے۔ تاہم ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے گذشتہ بدھ کو ایک میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ آپریشن رد الفساد کے تحت 60 ہزار آپریشنز خفیہ معلومات کی بنیاد پر کیے گئے جن میں 248 جوانوں نے شہادت پائی۔ قبائلی علاقوں میں 70 ہزار بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنایا گیا۔

خیبر پختونخوا سب سے متاثرہ صوبہ

2020 کی طرح 2021 میں بھی خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات ہوئے۔ 111 کل واقعات میں سے 53 صرف وزیرستان میں ہوئے۔ جن میں مجموعی طور پر 169 افراد جان سے گئے۔ وزیرستان جو کہ پچھلے کئی سالوں سے دہشت گردانہ کارروائیوں گڑھ بن چکا ہے وہاں 2020 میں ایسے 31اور گذشتہ سال 37 واقعات ہوئے۔ خیبر پختونخوا میں ہونے والے حملوں میں سے 71 فیصد حملے سکیورٹی فورسز پر ہوئے۔ تحریک طالبان پاکستان کے علاوہ اسلامک سٹیٹ خراسان نے بھی جنوبی وزیرستان، پشاور، کرم ایجنسی اور باجوڑ کے اضلاع میں حملے کیے جن میں ایک خود کش حملہ بھی تھا۔

بلوچستان دوسرا سب سے متاثرہ صوبہ ہے جہاں 81 حملوں میں 136افراد جان سے گئے۔ ان حملوں کی ذمہ داری جن بلوچ علیحدگی پسند گروپوں نے تسلیم کی ان میں بلوچ لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچ رپبلکن گارڈ اور یونائٹڈ بلوچ آرمی وغیرہ شامل ہیں۔ جنہوں نے بلوچستان کے 17اضلاع میں81 کارروائیاں کیں جن میں سب سے زیادہ ضلع کیچ میں 19، کوئٹہ میں 18اورسبی میں 7 حملے ہوئے۔ بلوچستان میں ہونے والے حملوں میں بھی 66 فیصد حملے سکیورٹی فورسز پر ہوئے۔ 10 حملے مذہبی شدت پسند گروپوں نے کیے۔ اسلامک سٹیٹ نے بولان میں 11 کان کنوں کو ہلاک کر ڈالا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سندھ میں کل 8 دہشت گر د حملے ہوئے جن میں سے 5 کراچی میں ہوئے۔ جن میں 13افراد ہلاک اور 35 زخمی ہوئے۔ کالعدم گروپ بلوچ لبریشن فرنٹ نے دو حملے چینی شہریوں کے خلاف کیے جبکہ بی ایل اے نے ایک حملہ رینجرز پر کیا۔ سندھ ریولوشنری آرمی نے سکیورٹی فورسز، ریلوے لائنوں اور سیاسی رہنماؤں پر تین حملے کیے۔ سپاہ محمد پاکستان نے کراچی میں حملہ کر کے مفتی سلیم اللہ خان کو ہلاک کر دیا۔

پنجاب میں کل پانچ حملے ہوئے جن میں 14افراد ہلاک اور 51 زخمی ہوئے۔ تحریک طالبان نے راولپنڈی میں دو پولیس والوں کو ہلاک کر دیا۔ جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید کے گھر کے باہر دھماکے میں تین افراد مارے گئے۔ ڈیرہ غازی خان اور بہاولنگر میں مذہبی شدت پسندوں کے ہاتھوں سات افراد مارے گئے۔ اسلام آباد میں تحریک طالبان کے ہاتھوں تین پولیس والے مارے گئے۔

پرتشدد واقعات میں کمی

مجموعی طور پر گذشتہ سال میں پرتشدد واقعات میں کمی نوٹ کی گئی ہے جو 2020 میں 373 تھے جو گذشتہ سال کم ہو کر 326 پر آ گئے۔ لیکن ان واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں 21 فیصد اضافہ ہوا جو 2020 میں  503 تھیں اور اب بڑھ کر 609 ہو گئیں۔ جن میں سرحدوں پر جھڑپوں کے 23واقعات بھی شامل ہیں جن میں 23ہلاکتیں ہوئیں۔ پرتشدد واقعات میں ہونے والی ہلاکتیں جو 2015 میں 3503 تھیں گزشتہ سال وہ 609 پر آ گئیں۔

ٹی ٹی پی اب بھی ایک بڑا خطرہ

تحریک طالبان پاکستان ابھی تک پاکستان کی سکیورٹی کے لیے ایک بڑے چیلنج کے طور پر موجود ہے۔ خبریں گردش کرتی رہیں کہ سراج الدین حقانی نے پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان ثالث کا کردار ادا کیا ہے اور وقتی طور پر 2021 میں فریقین کے درمیان جنگ بندی بھی ہوئی لیکن ابھی اس معاہدے کو ایک ماہ بھی نہیں ہوا تھا کہ طالبان نے معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ ایک عمومی خیال تھا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے سے افغان طالبان پاکستانی طالبان پر اپنا اثر رسوخ استعمال کریں گے مگر ابھی تک ایسا ہو نہیں سکا۔

پچھلے سال اگست میں پاکستانی طالبان کے امیر نور ولی محسود نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اتحادی افواج افغانستان سے چلی گئیں تو وہ قبائلی علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر نے کی صلاحیت حاصل کر لیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان ان کا دشمن ہے اور وہ سکیورٹی فورسز پر حملے جاری رکھیں گے۔ یہ دعوی ٰ غلط ا س لیے نہیں کہ جیسے جیسے افغانستان کے مختلف اضلاع میں طالبان قبضہ کرتے چلے گئے پاکستان میں بھی ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا۔

گذشتہ سال صرف جولائی اور اگست میں ٹی ٹی پی نے پولیس اور فوج کے خلاف 33 حملے کیے جن میں 47 ہلاکتیں ہوئیں۔ ان کے اپنے ترجمان عمر میڈیا کے مطابق ٹی ٹی پی نے ان دو مہینو ں میں کے پی کے مختلف اضلاع میں 58 حملے کیے جن میں 56 ہلاکتیں ہوئیں۔ ٹی ٹی پی نے کوئٹہ میں سرینا ہوٹل پر حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی جہاں چینی سفیر کچھ دیر بعد پہنچنے والے تھے ۔ کہا جا رہا ہے کہ ژوب اور چمن میں ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کے ٹھکانے بڑھ رہے ہیں۔ طالبان کے کابل میں قبضے کے بعد ٹی ٹی پی فاٹا اور بلوچستان میں اپنا نیٹ ورک قائم کر رہی ہے۔

داعش

داعش کا خراسان چیپٹر بھی ایک بڑے خطرے کے طور پر پاکستان میں مسلسل کارروائیاں کر رہا ہے۔ اس نے کوئٹہ میں ہزارہ شیعوں، مبینہ افغان طالبان، مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کے خلاف کے پی اور بلوچستان میں حملے کیے ہیں اور پشاور میں افغان کمانڈر نیک محمد راہبر کو بھی ہلاک کیا ہے۔ اسلامک سٹیٹ کو پاکستان میں لشکر جھنگوی کی بھی حمایت حاصل ہے اور اس گروپ نے افغانستان میں گذشتہ سال 339 حملے کیے ہیں جبکہ پاکستان میں اس عرصے میں 19 حملے کیے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں داعش کے دو ہزار عسکریت پسند موجود ہیں جو پاکستان کے لیے ایک بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔ کیونکہ ماضی میں پاکستان میں کئی عسکری گروپوں کے لوگ داعش کا حصہ بنتے آئے ہیں۔ القاعدہ اگرچہ فی الحال فعال نہیں ہے تاہم ایسی خبریں ہیں کہ وہ پاکستانی اور افغان طالبان میں اپنے حمایتیوں کے ذریعے دوبارہ طاقت حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

بلوچ علیحدگی پسند اور سندھی قوم پرست گروہ

بلوچستان میں جاری باغیانہ سرگرمیوں میں پانچ گروہ ملوث ہیں جن میں بلوچستان لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ وغیرہ شامل ہیں۔ حکومتی اور سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ سی پیک پر کام کرنے والے چینی اہلکار ان کا بڑا ہدف ہیں۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ کابل میں پاکستان مخالف حکومت کے خاتمے کے بعد ان علیحدگی پسندوں کے محفوظ ٹھکانے ختم ہو جانے سے بلوچ بغاوت روز بروز کمزور ہوتی جائے گی۔ سندھ ریولوشنری آرمی نے سندھ میں گزشتہ سال تین حملے کیے ہیں سکیورٹی اداروں کے مطابق سندھی قوم پرست باغیوں اور بلوچ علیحدگی پسندوں نے آپس میں اتحاد قائم کر لیا ہے۔

مذہبی انتہا پسندی کا چیلنج

سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز نے اپنی سالانہ سکیورٹی رپورٹ میں تحریک لبیک کو ایک بڑے چیلنج کے طور پر پیش کیا ہے جس کے پر تشدد مظاہروں کے نتیجے میں گذشتہ سال 14 افراد ہلاک اور 1056 زخمی ہوئے۔ جب یہ مظاہرے جاری تھے تو ٹی ایل پی کے کارکنوں نے پشاور اور لیہ میں دو احمدیوں کو قتل کر دیا۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کا کہنا ہے کہ پچھلے سال انتہا پسندی کے واقعات میں 46 فیصد اضافہ ہوا۔ ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہہ دیا کہ ریاست اور حکومت انتہا پسندی سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور یہ ایک بم شیل ہے جو ٹک ٹک کر رہا ہے۔ مذہبی انتہا پسندوں سے خطرہ صرف اقلیتوں، احمدیوں، شیعوں کو نہیں بلکہ ان لوگوں کو بھی ہے جو ان سے اختلافِ رائے رکھتے ہیں۔

نیشنل ایکشن پلان کا کیا بنا؟

موجودہ حکومت نے نیپ کے 20 نکات کو 14 تک محدود کر دیا ہے۔ کئی نکات کو برقرار اور بعض میں تبدیلیاں کی گئی ہیں اور کچھ نئے نکات بھی شامل کیے گئے ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے ا س میں ابھی تک بہت ابہام پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر میڈیا پر منافرت اور دہشت پھیلانے کے نام پر حکومت کسی بھی شخص کو گرفتار کر سکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا نشانہ انتہا پسند تو نہیں بنے البتہ اسے حکومت نے اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا۔ ابھی حال ہی میں حکومت نے قومی سلامتی پالیسی 2022-26 کی منظوری دی ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ معاشی استحکام اس کا مرکزی ایجنڈا ہے جس سے داخلہ اور خارجہ سکیورٹی منسلک ہے۔

دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کو قومی سلامتی پالیسی بناتے وقت اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اسی طرح ایف اے ٹی ایف کا معاملہ ہے اس کا مرکزی نکتہ ہے کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت روکی جائے لیکن حکومت کا سارا زور این جی اوز کا گھیرا تنگ کرنے پر ہے۔ حالانکہ یہی این جی اوز انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ایک موثر آواز بن کر سامنے آئیں۔

اس کا واضح مطلب یہ بھی ہے کہ حکومت کی داخلی مشینری عدم تعاون اور بے سمتی کا شکار ہے۔ نیکٹا کو اگر فعال کیا جاتا اور اس کو با اختیار بنایا جاتا تو بہتر نتائج آ سکتے تھے مگر یہ ادارہ عضو معطل بن کر رہ گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان