حال ہی میں لانسٹ پبلک ہیلتھ جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق سنہ 2050 تک دنیا بھر میں تقریباً 153 ملین یعنی 15 کروڑ سے زیادہ افراد ڈمنشیا کے مرض میں مبتلا ہوں گے جس میں انسان کی یاد رکھنے کی صلاحیت آہستہ آہستہ کم ہونے لگتی ہے حتی کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ مریض کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اسے کھانا بھی کھانا ہے۔
خطرناک بات یہ ہے کہ 2019 میں ڈمینشیا کے مریضوں کی تعداد 57 ملین یعنی پانچ کروڑ سے زیادہ تھی جو ماہرین کے مطابق اگلے 28 برسوں میں تین گنا بڑھ جائے گی یعنی اس مرض کے پھیلاؤ میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق دو لاکھ افراد ڈمنشیا کے مرض میں مبتلا ہیں اور ان مریضوں کی تعداد میں دو سے چھ فیصد سالانہ اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن اس مرض میں مبتلا مریضوں کے لیے صرف ایک ڈمنشیا سپیشلسٹ ہے، ایک ان مریضوں کی معلومات رکھنے کے لیے رجسٹری ہے، ایک ریسرچ سینٹر ہے، دو اکیڈمک ریسرچ کلینکس ہیں اور ایک ڈے کیئر سینٹر ہے۔
یہ اعداد و شمار ہیں۔ میں نے لکھ دیے آپ نے پڑھ لیے۔ لیکن کیا آپ کبھی ایسے خاندان سے ملے ہیں یا ان کی روداد سنی یا پڑھی ہے کہ ان کے دن رات ایک ڈمنشیا کے مریض کا خیال رکھتے ہوئے کیسے گزر رہے ہیں۔
55 سالہ ثانیہ (فرضی نام) لاہور کی رہائشی ہیں اور ان کا تعلق کم آمدنی والے متوسط طبقے سے ہے۔
ان کا ایک ہی بیٹا ہے جو چند سال قبل ہی ملازمت پر لگا ہے اور اس کی تنخواہ اتنی ہے کہ ثانیہ اپنے بیٹے اور شوہر جن کو ڈمنشیا ہے کے ہمراہ رہتی ہیں۔
میرے شوہر ثاقب (فرضی نام) تقریباً 10 سال قبل کافی ذہنی دباؤ میں تھے اور اس حالت کے ایک ہفتے بعد ان کو مرگی کا دورہ پڑا۔ میں فوراً ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی جہاں ڈاکٹر نے کہا کہ ان کو ڈمنشیا ہے۔
میرے پیروں تلے سے زمین ہی نکل گئی۔ کم آمدنی، ایک ہی بیٹا جو ابھی نوکری میں پیر جما رہا تھا۔
میں نے فوراً ثاقب کے گھر والوں سے بات کی کہ مل کر اس کو سنبھالا جائے۔ لیکن اس کے گھر والوں نے یہ ماننے سے انکار ہی کر دیا کہ اس کو ڈمنشیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس عمر میں تو لوگ باتیں بھول جاتے ہیں اور تم خوامخوا اس کو ڈمنشیا کا نام دے رہی ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میں نے انٹرنیٹ پر اس مرض کے بارے میں مزید جانکاری کے لیے پڑھنا شروع کر دیا۔ بڑے بڑے ڈاکٹروں کے چکر لگانے کے لیے تو پیسے نہیں تھے اس لیے میں نے پڑھنا شروع کیا اور جہاں بھی ڈمنشیا کے مریض کا خیال رکھنے والے کی آپ بیتی پڑھتی تو اس سے سیکھنے کی کوشش کرتی اور ثاقب کی حالت کا اس سے موازنہ کرتی۔ میں نے کئی ایسے افراد سے رابطے بھی کیے اور ان سے بات چیت کی۔
اس مرض میں مبتلا مریضوں کے خاندان والوں میں سے اکثر کی کہانی مجھ سے مختلف نہیں تھی۔ خاندان والے اس بات کا اعتراف کرنے کو تیار نہیں تھے کہ ان کے بھائی یا بہن کو ڈمنشیا ہوگیا ہے اور ایسے میں اس مریض کا سارا بوجھ اس کی اولاد یا شریک حیات پر آ پڑتا ہے۔
ہمت تو ہر روز ٹوٹتی ہے اور ہر روز باندھتی ہوں۔ ثاقب کی جتنی زندگی باقی رہ گئی ہے اس کو آسان بنانا چاہتی ہوں لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ تو ڈمنشیا کے مریض ہیں لیکن میں اور میرا بیٹا نہیں۔
ان کی دیکھ بھال ہم دونوں کے لیے ذہنی اور جسمانی طور پر تھکا دینے والی ہے۔
آغاز میں ثاقب بہت چڑچڑا ہوگئے۔ ہر وقت غصہ چڑھا رہتا تھا۔ بہت پیار سے وہ ایک کتا لائے تھے لیکن اب اس کو بھی آتے جاتے لاتیں مارتے ہیں اور اتنی بے دردی سے مارتے ہیں کہ کئی بار تو اس کو اٹھا کر کئی کئی فٹ دور پھینکتے ہیں۔ مجھ کو اور میرے بیٹے کو برا بھلا کہتے ہیں۔
پھر وہ گھر سے نکل جاتے ہیں۔ ہر وقت دروازے کو تالا لگا کر رکھنا اور نظر رکھنا کہ کہیں باہر نہ نکل جائیں۔ ہر وقت باہر جانے کا جی چاہتا ہے اور کوشش میں ہوتے ہیں کہ باہر نکل جائیں۔ لیکن پھر یک مشت ہی باہر جانے کی ضد بند کر دی اور اپنے آپ کو گھر ہی میں بند کر دیا۔
ٹی وی دیکھتے تھے تو ٹی وی کے سامنے تو بیٹھے ہوتے تھے لیکن ایسے جیسے خلا میں دیکھ رہے ہوں لیکن کئی دن خبروں اور ڈراموں پر تبصرے کرتے تھے۔
ڈمنشیا کے مریض کے ساتھ ہر روز اور ہر لمحہ غیر متوقع ہوتا ہے۔ وہ کچھ بھی کسی بھی لمحے کر سکتے ہیں اور ضد پکڑ لیتے ہیں۔
میرے خیال میں سب سے مشکل بات جس پر ثاقب کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے کھانا کھایا ہے۔ وہ بار بار چیخ چیخ کر کہتے ہیں ثانیہ آج کھانا نہیں دو گی۔ اور اگر کہوں کہ ابھی تو کھایا ہے تو آگے سے مزید اونچی آواز میں کہتے ہیں کب کھایا ہے، کب کھایا ہے۔ مجھے کھانا دو مجھے بھوکا مار رہی ہو۔
نہائیں گے تو دن میں چھ چھ سات سات بار نہائیں گے اور نہیں نہانا تو مہینہ مہینہ نہیں نہاتے۔ کئی بار دانت برش کرنا بھول جاتے ہیں تو ان کا ہاتھ پکڑ کر دانت صاف کرنے پڑتے ہیں۔ کبھی پیشاپ بستر میں کر دیتے ہیں۔
ثاقب اس وقت ڈمنشیا کے اس سٹیج میں ہیں جہاں ان کا دماغ ان کو کہتا ہے کہ چلو نہیں ورنہ گر جاؤ گے۔ اسی لیے اگر وہ لیٹے بھی ہوں تو اپنی چھڑی اپنے قریب ہی رکھتے ہیں اور اگر نہ پڑی ہو تو اونچا اونچا بولنا شروع کر دیں گے۔
افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ان کے بہن بھائی یا دیگر رشتہ دار ان سے ملنے آتے ہیں۔ کئی بار ثاقب بالکل نارمل ہوتے ہیں ان کو باتیں یاد ہوتی ہیں وہ گپیں مارتے ہیں۔ لیکن ان کے بہن بھائی یا رشتہ دار اس بات کو نہیں سمجھتے یا سمجھنا چاہتے نہیں ہیں کہ اس مرض میں مریض کبھی بالکل نارمل ہوتا ہے۔ وہ تو مجھ کو اور میرے بیٹے ہی کو کہتے ہیں کہ تم لوگ اس کا خیال نہیں رکھتے۔
لیکن ان کو یہ معلوم نہیں کہ سب سے زیادہ متاثر میرا بیٹا ہو رہا ہے۔ ملازمت کر کے واپس گھر آتا ہے تو باپ کی یہ حالت دیکھتا ہے، کبھی پیار سے بات کرتا ہے تو کبھی غصے میں اپنے والد سے بات کرتا ہے۔
اس کو گھر میں بھی آرام نہیں ملتا۔ اسی لیے وہ دفتر سے آ کر بھی کوشش کرتا ہے کہ کچھ دیر بعد گھر سے باہر چلا جائے۔ لیکن ایسا وہ کب تک کرے گا اور کب تک کر سکتا ہے۔
مجھے تو اب سب کچھ ہی کرنا ہے اور اس کا خیال رکھنا ہے۔ لیکن میرے لیے بھی بہت مشکل ہے۔ میں جسمانی اور ذہنی طور پر تھک چکی ہوں۔ میں ان کو جب کھانا کھلاتی ہوں اور جس طریقے سے ثاقب کھانا کھاتا ہے تو اس کے بعد میں خود کھانا نہیں کھا سکتی۔
رات کو بھی نیند اسی فکر میں برائے نام ہی آتی ہے کہ کہیں خود اٹھ کر نہ چل پڑیں اور کہیں گر نہ جائیں۔ کوئی کھانے کی چیز فرج میں نہیں رکھ سکتی کہ کہیں ثاقب رات کو اٹھ کر سارا نہ کھا جائیں۔
اسی لیے میں اس وقت سوتی ہوں جب وہ سوجاتے ہیں اور اس وقت تک ان کے کاموں میں لگی رہتی ہوں جب تک وہ جاگ رہے ہوں۔
ذہنی آرام کے لیے میں جب اٹھتی ہوں اور وہ سوئے ہوئے ہوتے ہیں تو میں اپنے لیے چائے بناتی ہوں اور گھر کی کھڑکی کے قریب بیٹھ کر خاموشی سے چائے پیتی ہوں۔
یہ وہ وقت ہوتا ہے جب میں کسی کا فون نہیں اٹھاتی، اپنے بیٹے سے بات نہیں کرتی۔ تسبیح کرتی ہوں اور کچھ نہیں سوچتی۔ پھر میں اپنی ڈائری لکھتی ہوں اور ایک بار پھر ڈمنشیا کے مریض کے ساتھ دن گزارنے کے لیے تیار ہوتی ہوں۔