اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کا فرانزک تجزیہ کرانے کی پیشکش کرتے ہوئے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور پاکستان بار کونسل سے مستند غیر ملکی فرانزک کمپنیوں کے نام طلب کر لیے ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے جمعے کو سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کے آڈیو کلپ کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن قائم کرنے کی درخواست پر سماعت کی۔
مذکورہ آڈیو کلپ کی تحقیقات کرانے کے لیے درخواست سندھ ہائی کورٹ بار کے صلاح الدین ایڈووکیٹ نے دائر کر رکھی ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ سال نومبر میں پاکستانی صحافی احمد نورانی نے اپنی ویب سائٹ پر مبینہ طور پر سابق چیف جسٹس نثار کی آواز پر مشتمل ایک آڈیو کلپ پوسٹ کیا تھا۔
مذکورہ آڈیو کلپ میں جسٹس (ر) ثاقب نثار ایک دوسرے شخص کو کہتے ہوئے سنے جا سکتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران کی سیاست میں جگہ بنانے کے لیے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جمعے کی سماعت میں عدالت عالیہ نے درخواست گزار کو سابق چیف جسٹس کی مبینہ آڈیو کلپ کی کاپی فراہم کرنے کی بھی ہدایت کر دی، جس کا فرانزک تجزیہ کسی مستند غیر ملکی کمپنی سے کروایا جائے گا۔
سماعت کے دوران ایک موقعے پر درخواست گزار صلاح الدین ایڈوکیٹ نے عدالت کے دریافت کرنے پر بتایا کہ انہیں نہیں معلوم کہ جسٹس (ر) ثاقب نثار کی اوریجنل آڈیو کہاں اور کس کے پاس ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے کی انکوائری کے لیے ایک خود مختار کمیشن بنانے کی استدعا لے کر آئے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایک موقعے پر سوال اٹھایا کہ جسٹس (ر) ثاقب نثار کی آڈیو کلپ کا تعلق سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی عدالت عالیہ میں زیر التوا اپیل سے متعلق ہے، تو انہوں نے انکوائری کا مطالبہ کیوں نہیں کیا؟
انہوں نے کہا کہ یہ عدالت جو بھی حکم یا ہدایت جاری کرے گی اس کے اثرات زیر التوا اپیلوں پر بھی ہوں گے۔
انہوں نے مزید سوال اٹھایا کہ کیا یہ ہائی کورٹ اس درخواست میں کوئی ایسا حکم جاری کر سکتی ہے، جس کا اثر زیر التوا اپیل پر پڑے؟
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایک دوسرے موقعے پر کہا کہ درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے بینچ کسی دباؤ کے تحت بنائے گئے، جس پر درخواست گزار نے کہا کہ ان کی درخواست میں کوئی ایسا الزام نہیں ہے۔ ’یہ الزام رانا شمیم کے بیان حلفی میں لگایا گیا ہے۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا اسلام آباد ہائی کورٹ کمپرومائزڈ تھی اور بینچ دباؤ کے تحت بنایا گیا تھا؟
ساتھ ہی انہوں نے دریافت کیا کہ کیا اس متعلق کوئی چھوٹا سا بھی ثبوت موجود ہے؟ ’جب آپ کہتے ہیں کہ انکوائری ہونا چاہیے تو وہ انکوائری بینچ میں شامل ججز کی ہوگی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
درخواست گزار صلاح الدین کا کہنا تھا کہ ان کی پٹیشن میں بنیادی استدعا ثاقب نثار کے آڈیو کلپ کی انکوائری سے متعلق ہے، جس سے ایسی کوئی بات معلوم نہیں ہوتی کہ ٹیلیفون پر دوسری طرف جسٹس (ر) ثاقب نثار کسی جج سے بات کر رہے ہیں۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پٹیشن میں دیگر حوالہ جات اس کا کانٹیکسٹ سمجھانے کے لیے شامل کیے گئے ہیں۔
صلاح الدین ایڈوکیٹ نے مزید کہا کہ ابھی کسی کو قصور وار یا بے قصور قرار دینے کا وقت نہیں آیا۔ ’ایسا کرنا ابھی قبل از وقت ہوگا، اس بات کا تعین تحقیقات کے دوران ہو سکے گا۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایک دوسرے موقعے پر دریافت کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے بینچ میں شامل ججز کے آرڈر سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ان پر دباؤ تھا؟ ’آرڈر تو اس کے بالکل برخلاف آیا تھا۔‘
درخواست گزار صلاح الدین ایڈوکیٹ نے کہا کہ صحافی احمد نورانی نے فیکٹ فوکس پر سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی آڈیو کلپ کے حوالے سے خبر لگائی، جس کی فرانزک رپورٹ میں تصدیق موجود ہے کہ اس میں تبدیلی (ایڈیٹنگ) نہیں کی گئی ہے۔
صلاح الدین ایڈووکیٹ نے سابق چیف جسٹس کی مبینہ آڈیو کلپ کی فرانزک رپورٹ عدالت میں پڑھ کر سنائی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ان سے دریافت کیا کہ یہ رپورٹ کہاں سے حاصل کی گئی ہے؟
صلاح الدین ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے مذکورہ رپورٹ انٹرنیٹ سے حاصل کی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا: ’انٹرنیٹ پر تو بہت ساری چیزیں آتی ہیں، کل کو زیر التوا کیسز میں مزید پٹیشنز آ جائیں گی کہ یہ آڈیو ہے، اس کی انکوائری کرائیں۔‘
انہوں نے درخواست گزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ جس فرانزک رپورٹ کا حوالہ دے رہے ہیں اس پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔
درخواست گزار نے کہا کہ مذکورہ آڈیو کلپ کی کاپی تمام چینلز کے پاس ہے، جنہوں نے اسے چلانے کا رسک لیا۔ ’ٹی وی چینلز نے اس کلپ کو سنجیدہ لیتے ہوئے توہین عدالت کی کارروائی کے خدشے کے باوجود آڈیو کلپ چلایا۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ اگر مذکورہ آڈیو کلپ کا فرانزک کرایا جائے تو اس کے اخراجات کون برداشت کرے گا؟ جس پر درخواست گزار نے کہا کہ وفاقی وزارت قانون یہ اخراجات اٹھا سکتی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ٹیکس دہندگان کا پیسہ اس پر کیوں خرچ ہو؟
انہوں نے کہا کہ تاریخ واقعی تلخ ہے، ججز نے ماضی میں چیزوں کو تسلیم کیا، جبکہ یہاں معاملہ مختلف ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزار صلاح الدین ایڈوکیٹ سے کسی مستند فرانزک ایجنسی کا نام تجویز کرنے کو کہا، جس سے آڈیو کلپ کا فرانزک کرایا جا سکے۔
اس پر درخواست گزار صلاح الدین ایڈوکیٹ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے انہیں کسی کی پراکسی قرار دیا ہوا ہے، اس لیے وہ کوئی نام تجویز نہیں کریں گے۔ ’آپ اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان سے ہی کسی مستند فرانزک ایجنسی کا نام معلوم کر لیں۔‘
اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل سے غیر ملکی مستند فرانزک ایجنسیوں کے نام طلب کر لیے، جبکہ درخواست گزار کو جسٹس (ر) ثاقب نثار کا آڈیو کلپ فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
عدالت سماعت 28 جنوری تک ملتوی کر دی گئی۔
رانا شمیم کیس
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے گلگت بلتستان کے چیف جج رانا شمیم کی بہو انعم احمد رانا کی عدلیہ پر دباؤ سے متعلق تحقیقات کے لیے عدالت کمیشن تشکیل دیے جانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
درخواست گزار کی جانب سے احمد حسن رانا ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے، جنہوں نے کہا کہ درخواست پہلے سے زیر سماعت پٹیشن سے ملتی جلتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی متاثرہ فریق کس طرح بلواسطہ عدالت سے رجوع کر سکتا ہے، اس سے متعلق عدالتی نظیریں پیش کی جائیں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ رانا شمیم کا بیان حلفی ریکارڈ پر آیا جبکہ اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی بھی مرضی کے بینچ بنانے کا بیان دے چکے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ان سے دریافت کیا کہ انہیں کس بینچ کے دباؤ کے تحت بنائے جانے کا شک ہے؟
وکیل احمد حسن رانا نے کہا کہ رانا شمیم کے بیان حلفی کے دو حصے ہیں، جس ]ر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ اس بیان حلفی پر بات نہ کریں۔
جواب میں احمد حسن رانا نے کہا کہ ان کی درخواست صرف جوڈیشل انکوائری سے متعلق ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تحقیقات کے لیے کوئی گراؤنڈ بھی تو ہونا چاہیے۔
’میں آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ آپ کو کون سا شک ہے کہ بینچ کسی کے پریشر میں بنایا گیا، اگر کوئی مس کنڈکٹ ہوا ہے تو پھر وہ تو بینچ کے ججز کی طرف سے ہے۔‘