نہ آیا ہوں نہ میں لایا گیا ہوں
میں حرفِ کن ہوں فرمایا گیا ہوں
یہ شعر تو ضرور سن رکھا ہوگا، لیکن شاید نہیں جانتے ہوں گے کہ کس شخصیت نے یہ فرمایا ہے۔۔۔ یہ ہیں حضرت واصف علی واصف بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، کالم نگار اور مسلم صوفی۔ اپنے عہد کی ایک عظیم شخصیت کہ شاید ان جیسا کوئی دوسرا نہیں ہے۔
حضرت واصف علی واصف 15 جنوری 1929 کو خوشاب میں پیدا ہوئے، مڈل تک تعلیم ہائی سکول خوشاب سے ہی حاصل کی جس کا پرانا اور اصل نام منموہن ناتھ ہائی سکول خوشاب تھا۔
اس کے بعد جھنگ سے گریجویشن کی اور بعد ایم اے انگریزی ادب کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور آ گئے۔۔۔ سول سروس کا امتحان بھی پاس کیا لیکن طبعیت میں ملازمت نہیں درویشی تھی جس کی وجہ سے سرکار کی نوکری کو چھوڑ کر لاہور نابھہ روڈ پر لاہور انگلش کالج میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔
اچھے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے شاعر بھی تھے اور نوائے وقت میں ہر ہفتے ان کا کالم بھی چھپتا تھا۔
مختلف اخباروں اور جرائد میں آپ کا کلام چھپا کرتا تھا۔ چند اصحاب کے اصرار پر یہ کلام جمع کیا گیا اور عارف نوشاہی سے کتابت کرائی گئی تو آپ کی پہلی تصنیف منظرِ عام پر آئی۔
یہ 1978 کی بات ہے۔ مجموعہ کلام کا نام ’شب چراغ‘ رکھا گیا۔ اس میں آپ کے لاہور انگلش کالج کے زمانے کی ایک نہایت پر شکوہ اور جلال و جمال سے مرقّع تصویر بھی تھی۔
اس کی تقریبِ رونمائی میں آپ کے بہت سے عقیدت مند اور اہلِ علم حضرات شامل ہوئے۔ اس کے بعدعوام آپ کی طرف اس درجہ متوجہ ہوئے کہ اور لوگ آپ کے رشد و ارشاد سے مستفید ہونے لگے۔
شروع شروع میں محفل کی باقاعدہ شکل لاہور کے مشہور اور مصروف مقام ’لکشمی چوک‘ میں بننی شروع ہوئی۔ اس کے بعد قذافی سٹیڈیم میں واقع فزیکل ٹریننگ کے ادارے میں محترم نیازی مرحوم کے ہاں محفلوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں پر ایک ہزار راتیں آپ نے خطاب کیا۔ مختلف موضوعات پرلوگ سوالات کیا کرتے اور آپ ان کے جواب دیا کرتے۔ بعد میں یہ سلسلہ آپ کی قیام گاہ 22 فردوس کالونی گلشن راوی پر شروع ہوا۔
حکومت کے بارے میں لکھتے ہیں: حکومت نااہل ہوسکتی ہے، غیر مخلص نہیں۔ ملک سے مخلص ہونا حکومت کی ذمہ داری بھی ہے اور ضرورت بھی۔ ملک سلامت رہے گا تو حکومت قائم رہ سکتی ہے۔ اس لیے حکومت ہمیشہ مخلص ہی ہوتی ہے۔
حزب اختلاف حکومت کو غیر مخلص کہتی ہے اور حکومت اپنے مخالفوں کو وطن دشمن کہتی ہے، جو انسان 10 سال سے زیادہ عرصے سے ملک میں رہ رہا ہو وہ ملک دشمن نہیں ہو سکتا۔ جس کے ماں باپ کی قبر اس ملک میں ہے وہ غدار نہیں۔
ان کے کلام کی تاثیر بھی کمال تھی لکھتے ہیں: جھوٹا آدمی کلام الہی بھی بیان کرے تو اثر نہ ہوگا۔ صداقت بیان کرنے کے لیے صادق کی زبان چاہیے۔ بلکہ صادق کی زبان ہی صداقت ہے۔ جتنا بڑا صادق، اتنی بڑی صداقت۔ انسان کا اصل جوہر صداقت ہے، صداقت مصلحت اندیش نہیں ہوسکتی۔ جہاں اظہار صداقت کا وقت ہو وہاں خاموش رہنا صداقت سے محروم کر دیتا ہے۔ اس انسان کو صادق نہیں کہتے جو اظہار صداقت میں ابہام کا سہارا لیتا ہو۔
واصف علی واصف صاحب کے دو قول آپ بھی دیکھیے کہتے ہیں ’اگر سکون چاہتے ہو تو دوسروں کا سکون برباد نہ کرو۔۔۔‘ اور اخلاقیات پر بات کرتے ہوئے کہا: ’اخلاق یہ ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے اپنے مزاج کو بد اخلاق نہ ہونے دیں۔‘
یہ واصف علی واصف ہی تھے جنہوں نے محبت میں غیر کی رائے کو حرام قرار دیا تھا۔
خوشاب کا یہ سپوت 18 جنوری 1993 کو 64 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی کو جاملا۔ واصف صاحب کو جنازگاہ مزنگ کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔