برصغیر میں لوگوں پر موسیقی کی چھاپ گہری ہے۔ ساز اور آواز کا ایسا سنگم جو آپ کو مست کردے۔ ایسی شاعری جسے سن کر بیماروں کو بھی قرار آجائے اسے قوالی کہیں تو غلط نہ ہوگا۔
یہ سماع کا ہی فیض ہے جو دلوں کو حق کی طرف راغب کرتا ہے۔ سماع اہل تصوف کی وہ محفل ہے جس میں قوال عارفانہ اشعار گاتے ہیں۔ قوالی کو روحانیت سے جوڑا گیا ہے۔
قدیم روایتی کلام کی شروعات حضرت امیر خسرو سے ہوتی ہے۔ آج فارسی، اردو، پنجابی، سندھی، سرائیکی میں قوالیاں بکثرت ملتی ہیں۔ زبان کوئی بھی ہو،روحانیت سب میں ایک جیسی ہے۔
پاکستانی نژاد برطانوی سلیم صابری قوال ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ 40 سال پہلے برطانیہ آئے۔ زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھے مگر اپنے خاندان کی روایت کو زندہ رکھا۔
سلیم صابری کے مطابق ان کے خاندان کا تعلق یمن۔ بھارت اور پاکستان کے شہر کراچی سے ہے۔
ان کا دعوی ہے کہ ان گھرانا 400سال سے صوفی ازم کو اپنے دل سے لگائے ہوئے ہے۔ یہی ان کا اوڑھنا ور بچھونا ہے۔
انہوں نے قوالی کے فن اور اس کی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے معروف قوال حاجی مقبول صابری کی شاگردی اختیار کی۔ اس فن میں کمال حاصل کرنے کیلئے استاد بڑے فتح علی خان،استاد جوہر علی خان کے ساتھ رہے۔ استاد اجمل علی خان سے بھی فیض حاصل کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سلیم صابری نے بتایا کہ آغاز میں بزرگ قوالی کو ذوق و شوق سے سنتے تھے۔ اب چونکہ دنیا میں نفسا نفسی کا عالم ہے۔ ہرطرف بے سکونی اور بے چینی ہے۔ ایسے میں ہر روح سکون کی متلاشی ہے۔ برطانیہ میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران بہت تبدیلیاں آئیں۔
سلیم صابری کا مزید کہنا تھا کہ یورپ کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کی جانب سے قوالی کی متعدد تقریبات منعقد کرائی جاتی ہیں۔ نوجوان ذوق و شوق سے قوالی سنتے ہیں۔ ترک لوگ جب برطانیہ آتے ہیں تو مولانا جلال الدین رومی کا کلام سناتے ہیں۔ ہم بھی دنیا تک اپنے صوفیا کا کلام پہنچا رہے ہیں۔
ان کے مطابق یورپ میں صوفی ازم سے وابستہ افراد کی بڑی تعداد مقیم ہے۔ ایشین ہی نہیں یورپین بھی اس کلام کو سننا چاہتے ہیں۔
سلیم صابری نے بتایا کہ گوروں کو ان کے الفاظ سمجھ نہیں آتے مگر وہ میوزک کو روحانی طور پر سنتے اور محسوس کرتے ہیں۔ مشکلات میں گھرے لوگ قلب اور روح کے سکون کیلئے وسائل ڈھونڈتے ہیں۔
سلیم صابری کے مطابق ایک دوسرے کو جوڑنے کیلئے آج قوالی کی بہت ضرورت ہے۔ صوفیا کا پیغام تو محبت ہے۔ ہمیں بھی محبت بانٹنی ہے۔ ایک دوسرے کو سمجھنا ہے اگر کسی کی رائے الگ ہے تو اسے احترام دینا ہوگا۔