دبئی میں بطور انجینئیر کام کرنے والے ایک پاکستانی شہری خالد محمود نے قومی ائیر لائن پی آئی اے کو پانچ کروڑ روپے ہرجانے کا لیگل نوٹس بھیج دیا۔ انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ پی آئی اے نے انہیں لاہور کے بجائے اسلام آباد ایئرپورٹ پر اتار کر بس کے ذریعے لاہور روانہ کیا۔
انجینئیر خالد محمود کی جانب سے یہ نوٹس کنزیومر پرو ٹیکشن ایکٹ2005 کے سیکشن 28 کے تحت بھیجا گیا ہے۔
یہ نوٹس متاثرہ شخص کے وکیل ایڈووکیٹ اشتیاق چوہدری کی جانب سے بھیجا گیا ہے۔
انجینئیر خالد محمودنے پی آئی اے انتظامیہ، ایم ڈی اور سول ایویایشن اتھارٹی کو نوٹس میں فریق بنایا۔
انجینئیر خالد محمود نارووال کے رہائشی ہیں۔
پی آئی اے کے لاہور میں ترجمان اطہر حسین نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ ’لیگل نوٹس کا جائزہ لے کے ادارے کا لیگل ڈپارٹمنٹ اس کا جواب دے گا۔‘
پی آئی اے کو جاری ہونے والے اس نوٹس میں متاثرہ شخص خالد محمود نے لکھا ہے کہ انہوں نے 17 دسمبر کو شارجہ سے لاہور آنے کے لیے پی کے 186 کی ٹکٹ بک کروا رکھی تھی۔ جب وہ شارجہ ائیر پورٹ پہنچے تو انہیں شارجہ سے اسلام آباد تک کا بورڈنگ پاس تھما دیا گیا۔
ان کے مطابق ائیر پورٹ پرموجود عملے سے جب پوچھا گیا کہ وہ لاہور کیسے پہنچیں گے تو انہیں جواب دیا گیا کہ یہاسلام آباد جا کر معلوم ہوگا کہ وہ لاہور کیسے پہنچیں گے۔
خالد محمود کے مطابق اس پر انہوں نے پی آئی اے حکام سے رابطے کی کوشش کی اور پی آئی اے پورٹل اور پی آئی اے کے فیس بک پیج پر بھی پوچھنے کی کوشش کی۔ لیکن تاحال پی آئی اے کی جانب سے انہیں کوئی جواب نہیں موصول ہوا۔
نوٹس کے مطابق خالد محمود رات گئے اسلام آباد ائیر پورٹ پہنچے۔ جہاں انہیں معلوم ہوا کہ وہاں سے کوئی اور جہاز انہیں لاہور نہیں لے کر جاسکتا اور انہیں لاہور جانے کے لیے اپنا انتظام خود کرنا ہو گا۔ جس پر خالد سمیت دیگر مسافروں نے اسلام آباد ائیر پورٹ پر احتجاج کیا۔ جس کے بعد انتظامیہ نے مسافروں کو بذریعہ بس لاہور بھیجنے کا انتظام کیا۔
نوٹس میں متاثرہ شخص نے یہ بھی بتایا ہے کہ شارجہ سے اسی دوران ایک نجی ائیر لائن کا جہاز لاہور پہنچا تھا۔ جبکہ پی آئی اے نے مسافر اسلام آباد اتار لیے اور انہیں دو بسوں کے ذریعے ائیر پورٹ پر تین گھنٹے انتظار کے بعد لاہور روانہ کیا۔
نوٹس میں بس کے حوالے سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ مسافروں کو اسلام آباد ائیر پورٹ سے لاہور لے جانے والی بس انتہائی غیرمعیاری تھی۔ اس کے شیشے بھی خراب تھے اور تمام سفر سخت سردی میں کرنا پڑا۔ جبکہ بس نے تمام مسافروں کو ائیر پورٹ کی بجائے لاری اڈے پر اتار دیا۔
نوٹس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پی آئی اے انتظامیہ مسافر خالد محمود کی شارجہ سے لاہور تک کی ٹکٹ کے ساٹھ ہزار روپے سمیت پانچ کروڑ روپے ہرجانہ ادا کرے اور 15 روز کے اندر ان سے معافی مانگے۔
خالد محمود کے وکیل ایڈووکیٹ اشتیاق چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’خالد محمود پیشے کے اعتبار سے انجنئیر ہیں اور دبئی میں کام کرتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ان کے موکل خالد محمود 15 دن یا ایک مہینے کے بعد پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں۔ ان کی شکایت کے بعد مجھے ایک دو اور شکایات بھی موصول ہوئیں۔ ایک کراچی کی فیملی تھی ان کا طیارہ لاہور کی بجائے اسلام آباد اتارا گیا۔ خاتون نے شکایت کی انہیں ٹھٹھرتی سردی میں اسلام آباد ائیر پورٹ سے ایک کھٹارا بس میں بٹھا کر لاہور روانہ کر دیا گیا اور بس نے انہیں بھی لاری اڈے پر اتار دیا۔
ایڈڈووکیت اشتیاق کا کہنا ہے کہ ’جب پی آئی اے کو معلوم ہے کہ فلائٹ منزل پر لینڈ نہیں کر سکتی تو مسافروں کو بورڈنگ پاس کیوں جاری کیا۔ اس میں ادارے کی غفلت تو ہے دوسرا یہ کہ ادارے کو کم از کم اچھی بسوں کا انتظام ہی کر دینا چاہیے۔‘
ان کے خیال میں ’یہ بھی ممکن ہے کہ عملے نے اعلیٰ حکام کو بل اچھی بسوں کا ہی بھیجا ہو لیکن مسافروں کو غیر معیاری بسوں پر چڑھا دیا ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا تھا کہ ’اگر شارجہ سے پاکستان کی نجی ائیر لائن آسکتی تھی تو پی آئی اے کا طیارہ لاہور کیوں لینڈ نہیں کر سکتا تھا؟‘
’یہ نوٹس کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ 2005 کے تحت بھیجا گیا ہے اور اگر پی آئی اے 15 روز میں متاثرہ شخص کو مطمئن نہیں کرتا تو ہم قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کنزیومر کورٹ سے رجوع کریں گے اور پی آئی اے انتظامیہ پر باقاعدہ کیس کریں گے۔‘
پی آئی اے کے لاہورمیں ترجمان اطہر حسین نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دھند کی وجہ سے گذشتہ ماہ سے کئی فلائٹس کو لاہور کی بجائے اسلام آباد یا کسی اور ائیر پورٹ پر لینڈ کیا گیا۔ ابھی بھی ہمارا فلائٹ شیڈول متاثر ہو رہا ہے۔ موسم کی خرابی کے باعث آپ کو فیصلے کرنا پڑتے ہیں جو مسافروں کی حفاظت کومدنظر رکھ کر کیے جاتے ہیں۔‘
بسوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’پی آئی اے کا بڑی بس سروسز کے ساتھ معاہدہ ہے جو لانگ روٹس پر چلتی ہیں۔ مسافروں کو ائیر پورٹ سے لے جانے کے لیے وہی بڑی بسیں استعمال ہوتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جو لیگل نوٹس بھیجا گیا ہے اس کا جواب لیگل ڈپارٹمنٹ دے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بس اب گھر گھر جا کر تو مسافروں کو ڈراپ نہیں کر سکتی۔ اس لیے ایک پوائنٹ رکھ لیتے ہیں اور وہاں مسافروں کو ڈراپ کرتے ہیں۔ تاکہ انہیں لے جانے والوں کو بھی آسانی ہو۔‘
ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ایسے لیگل نوٹسسز پی آئی اے کو موصول ہوتے رہتے ہیں اور یہ مسافروں کا حق ہے۔ لیکن ہرجانہ نہیں بھرا کیونکہ ہرجانہ ہم تب بھریں جب کوئی غفلت ثابت ہواور عدالت ہرجانہ بھرنے کا حکم دے۔‘