خیبر پختونخوا: ہسپتالوں میں پلمونولوجی کا شعبہ ’غیر آباد‘ کیوں ہوگیا؟

خیبر پختونخوا کے ڈاکٹروں کی تنظیم نے کرونا کی عالمی وبا کے دوران صوبے کے ہسپتالوں میں پلمونولوجسٹ یعنی پھیپھڑوں کے ماہر ڈاکٹروں کی تعداد میں کمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صوبائی صدر ڈاکٹر فضل منان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس وقت صوبے کے آٹھ تدریسی ہسپتالوں میں صرف تین بڑے ہسپتالوں میں پلمونولوجی یونٹس موجود ہیں (تصویر: پکسلز)

خیبر پختونخوا کے ڈاکٹروں کی تنظیم پروینشل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے کرونا کی عالمی وبا کے دوران صوبے کے ہسپتالوں میں پلمونولوجسٹ (پھیپھڑوں کے ماہر ڈاکٹر) کی تعداد میں کمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ایسوسی ایشن نے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک طرف اگر کرونا وبا کے دوران پلمونولوجسٹ کی ضرورت ہے تو دوسری جانب نئے ڈاکٹر پلمونولوجسٹ شعبے میں نہیں آرہے، جس کی وجہ سے صوبے کے ہسپتالوں کو پھیپھڑوں کے ماہرین کی کمی کا سامنا ہے۔

ڈاکٹروں کی بھرتیوں اور ہسپتالوں کے انتظامات چلانے والے ادارے پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے نام خط (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) میں لکھا گیا ہے کہ اس وقت صوبے کے بڑے ہسپتالوں میں پلمونولوجی کے تین یونٹس موجود ہیں جس میں ہر سال 12 ٹی ایم اوز کی بھرتی کی گنجائش ہے لیکن جتنی ضرورت ہے اس سے کم نشستوں پر بھرتیاں کی جاتی ہیں۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ ’سرکاری ہسپتالوں میں صوبے کے تین بڑے ہسپتال خیبر ٹیچنگ ہسپتال، ایوب ٹیچنگ ہسپتال اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ہر چھ ماہ بعد 12 نشستوں پر بھرتیوں میں صرف دو یا تین ٹرینی میڈیکل آفیسرز پلمونولوجی شعبے میں آتے ہیں اور باقی خالی رہ جاتے ہیں۔ رواں ماہ جنوری میں صرف چار نشستوں پر ٹی ایم اوز آئے لیکن باقی آٹھ سیٹیں خالی ہیں۔‘

خط میں بتایا گیا ہے کہ جیسا کہ میڈیکل میں کچھ شعبے ایسے ہیں جس میں ڈاکٹر زیادہ دلچسپی نہیں لیتے اور اس کی ایک لسٹ متعلقہ ادارے کے پاس موجود ہے، تو ایسوسی ایشن کی درخواست ہے کہ پلمونولوجی کو بھی اس لسٹ میں شامل کیا جائے۔

 اس کے علاوہ خط کے مطابق جنرل میڈیسن میں کچھ ٹی ایم اوز ایسے ہیں جو پلمونولوجی کو جوائن کرنا چاہتے ہیں، تو ان کو پلمونولوجی جوائن کرنے کی اجازت دی جائے۔

ڈاکٹرز پلمونولوجی کے شعبے میں کیوں نہیں آتے؟

ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صوبائی صدر ڈاکٹر فضل منان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس وقت صوبے کے آٹھ تدریسی ہسپتالوں میں سے صرف تین میں پلمونولوجی یونٹس موجود ہیں جب کہ باقی صوبے کے تدریسی اور ضلعی ہسپتالوں میں پلمونولوجی یونٹس نہیں ہیں، جس کی وجہ سے یہ شعبہ ’غیر آباد‘ ہونے جا رہا تھا اور ڈاکٹرز اس شعبے میں کم دلچسپی رکھتے ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’ہر ایک یونٹ میں تین سے پانچ پلمونولوجسٹ موجود ہیں جو ضرورت سے کم ہیں جب کہ نجی سیٹ اپ میں بھی پلمونولوجی کے ڈاکٹرز اتنے نہیں ہیں جو مریضوں کی ضرورت کو پورا کر سکیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ میڈیکل شعبے میں ایک ٹریںڈ اس طرح بن جاتا ہے کہ جب شعبے کم ہوں تو وہاں پر ملازمت کے مواقع بھی کم ہو جاتے ہیں، تو ڈاکٹرز اس شعبے میں جانے سے کتراتے ہیں اور وہ شعبہ اسی طرح ’غیر آباد‘ بن جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں متعلقہ شعبہ ایک لسٹ بناتا ہے اور پھر اس شعبے میں آنے والوں کے لیے خصوصی الاؤنس وغیرہ ہوتا ہے تاکہ لوگ اس شعبے میں آسکیں اور ہسپتالوں کی ضرورت کو پورا کر سکیں۔

’ہم نے یہ خط اس وجہ سے لکھا ہے کہ کرونا وبا کی وجہ سے پلمونولوجسٹ کی ضرورت بڑھ گئی ہے اور ہر ایک ہسپتال میں پلمونولوجسٹ کی ضرورت ہے، تو اسی وجہ سے ہم نے درخواست کی تھی کہ اس شعبے کو ’غیر آباد‘ شعبہ جات کی لسٹ میں ڈال دیا جائے اور اچھی بات یہ ہے کہ حکومت نے اس کو لسٹ میں شامل کر دیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر منان سے جب پوچھا گیا کہ کیا اس شعبے کے مریض کم ہوتے ہیں اسی لیے ڈاکٹرز نہیں آتے؟ تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’اس شعبے کے مریض بہت زیادہ ہیں جس میں سینے کے امراض، ٹی بی، دمہ اور اس طرح کی دیگر بیماریاں ہیں لیکن بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ اس کے یونٹس ہسپتالوں میں کم ہیں اور اسی وجہ سے جونیئر ڈاکٹرز پھر سوچتے ہیں کہ اس شعبے کا سکوپ زیاہ نہیں ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ کرونا وبا کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ شعبہ بہت پہلے سے ’غیر آباد‘ رہا ہے اور اس میں ڈاکٹروں کی دلچسپی ہمیشہ کم رہی ہے لیکن اب اس اس کو ’غیر آباد‘ لسٹ میں شامل کرنے سے یہ فائدہ ہوگا کہ اس شعبے میں مزید سپیشلسٹ آئیں گے اور دیگر ہسپتالوں میں پلمونولوجی کے یونٹس بھی قائم کیے جائیں گے۔

آرتھوپیڈک شعبے میں سپیشلائزیشن کرنے والے پشاور کے ڈاکٹر رحم دیار نے انڈپیندنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں ابھی تک یہ نہیں پتہ کہ پلمونولوجی میں ڈاکٹر کیوں نہیں جاتے کیونکہ جب وہ اپلائی کرتے تھے، تو اس وقت بھی عام تاثر یہی تھا کہ پلمونولوجی میں نہیں جانا چاہیے۔

ڈاکٹر رحم دیار نے مزید بتایا کہ پلمونولوجی کے زیادہ تر مریض مستقل ہوتے ہیں جس میں ٹی بی، پھیپھڑوں کی کچھ ایسے بیماریاں شامل ہیں، جن کو مستقل علاج کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے مریض ریگولر بنیادوں پر ڈاکٹر سے چیک اپ کرواتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’اب اس کو غیر آباد شعبہ جات کی لسٹ میں شامل کیا گیا ہے تو امید ہے کہ یہ شعبہ ترقی کرے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان