پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینٹ کی جانب سے ترامیم شدہ ’کام کی جگہ پر ہراسانی کا ترمیمی بل 2022‘ قومی اسمبلی میں گذشتہ ہفتے منظور کر لیا گیا ہے۔ خواتین اور انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی شخصیات نے ان ترامیم کو ایک خوش خبری قرار دیا ہے۔
وزارت انسانی حقوق نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’اس بل کا مسودہ وزارت انسانی حقوق نے خواتین کے افرادی قوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور پاکستان میں ہراسانی کے خلاف تحفظ کے قانون میں موجود خامیوں کو دور کرنے کے لیے تیار کیا تھا۔‘
اس بل کو پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ آف وومن ایٹ دا ورک پلیس امنڈمنٹ بل 2022 کا نام دیا گیا ہے۔
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی روح رواں نگہت داد نے بھی ان ترامیم کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اپنے آفیشل ٹویٹر ہینڈل پر ایک پورا تھریڈ پوسٹ کیا جس میں انہوں نے ان ترامیم کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔
نگہت داد نے انڈپینڈنٹ اردو سے ان ہی ترامیم پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’ان ترامیم کے حوالے سے گذشتہ دو برس سے سوچ بچار ہو رہی تھی کہ اس قانون میں کیا سقم اور کمی ہے اور انہیں کس طرح ختم کیا جائے۔ اس قانون میں جو کمی تھی اس کی نشاندہی ہراسانی سے متاثرہ ان خواتین کی وجہ سے ہوئیں جو گذشتہ چند برسوں میں اس قانون کے آنے کے بعد اپنے ساتھ ہونے والی ہراسانی کو سامنے لائیں۔ مثال کے طور پر کسی کا کیس اومبڈزپرسن نے مسترد کر دیا تو وہ اپیل میں گورنر کے پاس چلی گئیں یا ہائی کورٹس میں گئیں یا ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ میں گئیں۔‘
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایڈوکیٹ احمر مجید کا انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’ترامیم بہت اچھی ہیں۔ گذشتہ برسوں میں سامنے آنے والے کیسسز خاص طور پرمیشا شفیع اور علی ظفر والے کیس کے فیصلے کے تناظر میں اس قانون میں ترامیم کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ اب پہلے سے صورت حال کافی بہتر ہے۔‘
نگہت کے خیال میں گذشتہ برسوں میں ہراسانی کے کیسسز میں جو فیصلے ہوئے ان فیصلوں سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ قانون میں کچھ کمی ہے۔ اس میں ہراساں کیے جانے کی جو تعریف ہے وہ نامکمل ہے۔ اس میں صرف جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کو ہراساں کیا جانا سمجھا جاتا ہے۔ اس جنسی ہراسانی کو ثابت کرنا بہت ضروری تھا۔ لیکن ’ہراساں کیے جانے کی بہت سی ایسی صورتیں ہیں جیسے کسی کو ان کی صنف کی بنیاد پر تضحیک کا نشانہ بنانا۔ کسی ٹرانس پرسن یا خواتین کو ان کے جسم کی ساخت ہر کوئی جملہ کہہ دینا۔ ان کے کام کے حوالے سے ان کی ایسے تضحیک کرنا کہ ان کے کام کی جگہ ان کے لیےغیر محفوظ بن جائے۔‘
نگہت داد کے مطابق: ’ان ترامیم کے بعد ہراساں کیے جانے کی یہ تمام اقسام بھی اس میں شامل ہو گئیں ہیں۔ اس کے علاوہ اگر خواتین یہ کہتی ہیں کہ کام کی جگہ پر ان کی کارکردگی پر بار بار تنقید کی جاتی ہے یا انہیں اس طرح ترقی نہیں ملتی جیسے مرد حضرات کو ملتی ہے تو اس امتیاز کو بھی ان ترامیم کے بعد قانون میں جگہ مل گئی ہے۔‘
نگہت کا کہنا تھا کہ ’اس میں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ یہ قانون سب کے لیے ہے۔ جس میں خواتین، مرد اور صنفی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔‘
اس حوالے سے ایڈووکیٹ احمر کا کہنا تھا کہ ’اس میں بہتری کی گنجائش ہے۔ جیسے ان ترامیم میں ’کوئی بھی شخص‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن اگر صنفی اقلیتوں کو واضح طور پر لکھتے تو زیادہ بہتر ہوجاتا۔ کیونکہ ٹرانس پرسنز کو پہلے ہی نوکریاں کم ملتی ہیں اور جب ملتی ہیں تو ان کو سب سے زیادہ جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ اس لیے میرے خیال میں ان کا ذکر زیادہ واضح الفاظ میں ہو نا چاہیے تھا۔‘
نگہت داد کہتی ہیں کہ ’ان ترامیم میں ورک پلیس یا کام کرنے کی جگہ کو بھی بہت واضح کر دیا گیا ہے۔ اس میں ایک روایتی آفس نہیں ہے بلکہ اگر کوئی کھلاڑی خاتون ہے اور وہ اپنی مشق چاہے کسی میدان میں کر رہی ہیں یا جم میں تو وہ بھی ان کے کام کی جگہ تصور کی جائے گی۔ اسی طرح خواتین وکلا کے ساتھ اگر کمرہ عدالت یا کورٹ کے احاطے میں کوئی ہراسانی کا واقعہ پیش آتا ہے تو وہ بھی کام کی جگہ تصور کی جائے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان اکا مزید کہنا تھا کہ ’اسی طرح اگر کوئی مصور یا فنکار پرفارم کر رہا ہے تو ضروری نہیں کہ وہ سٹوڈیو میں پرفارم کر رہا ہے تو اسی کو اس کی کام کی جگہ تصور کیا جائے گا بلکہ اگر وہ کوئی کانسرٹ کر رہا ہے اور سٹیج پر کھڑا ہے یا وہ کہیں پریکٹس کرنے گیا ہے تو وہ بھی اس کی کام کی جگہ تصور کی جائے گی۔‘
ایڈوکیٹ احمر کے خیال میں ورک پلیس کے علاوہ جو ایسوسی ایشنز ہیں جیسے بار ایسوسی ایشنز یا ڈاکٹروں یا میڈیکل پروفیشنلز کی اپنی ایسوسی ایشنز، وہاں ملازمین یا مالک کا تعلق تو نہیں ہوتا لیکن وہ بھی ایک ورکنگ ماحول کے اندر ہوتے ہیں اس لیے ان کے حوالے سے بھی زیادہ واضح کر دیا جاتا تو بہتر ہوتا۔‘
ملازمین کون کون ہیں؟
نگہت کا کہنا ہے کہ ’ان ترامیم میں ملازمین کی تعریف کو بھی بہت واضح کر دیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جو کانٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین یا جو رسمی طور پر کام کرنے والے ملازمیں ہیں صرف وہ اس میں نہیں آئیں گے بلکہ اس میں طالب علم بھی شامل ہوں گے۔ کیونکہ وہ اس قانون میں شامل ہی نہیں تھے۔ لیکن اب طالب علم بھی ہراساں ہونے کی صورت میں کسی دوسرے طالب علم، اساتذہ، پروفیسر یا تعلیمی ادارے کے کسی بھی فرد کے خلاف ہراساں کرنے کی شکایت کر سکتیں ہیں۔ جنہیں اس سلسلے میں بنائی گئی کمیٹیاں دیکھیں گی۔‘
نگہت داد کا کہنا ہے کہ اس میں سب سے زیادہ اہم اقدام گھروں میں کام کرنے والے ملازمین کی شمولیت ہے۔ کیونکہ جب ان کی ہتک عزت ہوتی ہے، استحصال ہوتا ہے یا انہیں ہراساں کیا جاتا ہے تو وہ کہاں جائیں؟ تو اس سلسلے میں وہ متعلقہ اومبڈزپرسن کے پاس اس گھر کے اس فرد کے خلاف جس نے انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا ہے کے خلاف شکایت لے کر جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس قانون میں محتصب یا متعلقہ کمیٹیوں کو یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کوئی ہراساں کیے جانے کی شکایت لے کر آیا ہے تو اس میں یہ بھی دیکھا جائے کہ جس کے خلاف وہ شکایت لایا ہے وہ ان کے خلاف کیا ایکشن لے رہے ہیں۔‘
اس کے علاہ نگہت نے بتایا کہ ’اس قانون میں اب آن لائن سپیسسز پر جو لوگ کام کرتے ہیں وہ بھی شامل کر دیے گئے ہیں۔ جو لوگ آن لائن بزنس کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ جو کام کر رہے ہیں وہ ان کے ملازمین تصور کیے جائیں گے اور ان کی ورک پلیس انٹرنیٹ تصور کی جائے گی۔‘
ایڈووکیٹ احمر کہتے ہیں کہ ’ورک پلیس کی تعریف کو مزید بڑھا تو دیا گیا ہے لیکن اس میں بچوں کا ذکر نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’لیبر قوانین 14 سال کے بچے اور بچیوں کو چھوٹا موٹا کام کرنے کی اجازت دیتا ہے اور وہ کرتے بھی ہیں۔ اس قانون میں شخص کی بات کی گئی ہے مرد و عورت کی بات کی گئی ہے۔ مگر بچوں کے حوالے سے واضح نہیں کیا گیا۔ بہت سے بچے بھی لیبر ورک فورس میں اسی طرح کام کر رہے ہیں جس طرح کوئی بالغ کر رہے ہیں۔‘
نگہت کہتی داد کےمطابق انہیں لگتا ہے کہ اس طرح کے قانون میں اس حد تک ترقی پسند تبدیلیاں لانا ’ایک تاریخی قدم‘ ہے۔