میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد مظاہرین پر کریک ڈاؤن کا اب تک کا سب سے خونی دن ہفتہ رہا جب 114 ہلاکتوں کی اطلاع ملی تاہم اس کے باوجود اگلے روز اتوار کو پھر بھی مظاہرین سڑکوں پر واپس نکلے۔
جب لوگ کریک ڈاؤن میں ہلاک ہونے والوں، جن میں متعدد بچے بھی شامل تھے، کی آخری رسومات کے لیے یناگون اور منڈالے سمیت ملک بھر کے کئی شہروں میں اکٹھے ہوئے تو انہوں نے مطالبہ جاری رکھا کہ ملک میں جمہوریت بحال کی جائے۔
سیاسی قیدیوں کی تنظیم اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پرزنرز کے مطابق اتوار کو مزید نو لوگ مارے گئے جس کے بعد یکم فروری سے فوج کے اقتدار سنبھالنے سے لے کر اب تک ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 459 ہو گئی ہے۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے 20 سالہ طالب علم کی آخری رسومات میں شامل ہجوم پر فائرنگ کر دی۔ یہ طالب علم ہفتے کو بگو شہر میں مارے گئے تھے۔
مقامی ویب سائٹ ’میانمار ناؤ‘ کے مطابق دے مونگ مونگ نامی طالب علم کی آخری رسومات میں شریک متعدد افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ تاہم ویب سائٹ نے ہلاکتوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
ایک خاتون نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’مجھے یقین ہی نہیں ہو رہا کہ وہ آخری رسومات کی سروس کو بھی نشانہ بنائیں گے۔‘
یانگون میں ادا کی جانے والی آخری رسومات کی ایک اور تقریب میں شامل شرکا نے تین انگلیوں کے ساتھ سلیوٹ کیا جو فوجی بغاوت کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گیا ہے۔
تقریب میں شریک افراد 13 سال کے ایک لڑکے کا تابوت لائے تھے جنہیں ہفتے کو سکیورٹی فورسز نے گھر کے باہر کھیلتے ہوئے ہلاک کر دیا تھا۔
36 سالہ خاتون شوے مائنٹ کی آخری رسومات میں بھی اسی طرح کے انداز کا مظاہرہ کیا گیا۔ انہیں بھی ہفتے کو کچن کی شمالی ریاست کے شہر بیہمو میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
آن لائن نیوز سروس ’ڈیموکریٹک وائس آف برما‘ کے مطابق فوج نے ابتدائی طور پر خاتون کی لاش کو قبضے میں لے کر اسے خاندان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔
ان کی لاش تب واپس کی گئی جب خاندان نے ایک بیان پر دستخط کیا جس میں فوج کو ان کی موت کے الزام سے بری الذمہ قرار دیا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یانگون میں مظاہرین کے چھوٹے گروپ نے رہائشی علاقے میں مارچ کیا تاہم کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ شہر میں اتوار کو لی گئی دوسری تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرے کرنے والے روکاٹوں کے پیچھے چھپ کر خود کو پٹرول سے بھری بوتلوں اور غلیلوں سے مسلح کرتے رہے۔
ہفتے کا کریک ڈاؤن ملک کی مسلح افواج کے دن کے موقعے پر کیا گیا جب عام تعطیل تھی۔ کریک ڈاؤن کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی جس میں امریکہ اور برطانیہ سمیت 12 ملکوں کی فوجی قیادت کا مشترکہ بیان بھی شامل ہے۔
فوجی سربراہوں نے بیان میں کہا: ’ہم میانمار کی مسلح افواج اور اس کے ساتھ جڑی سکیورٹی سروسز کی جانب سے نہتے لوگوں پر طاقت کے مہلک استعمال کی مذمت کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ میانمار کی فوج کو لازمی طور پر ’تشدد ختم کر کے میانمار کے لوگوں میں اپنا وہ احترام اور ساکھ بحال کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے جسے وہ اپنے اقدامات کی وجہ سے کھو چکی ہے۔‘
میانمار میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے خودمختار ماہر ٹوم اینڈریوز نے فوج پر ’قتل عام‘ کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے کہا: ’آج میانمار کی جنتا نے ملک بھر میں مردوں، عورتوں اور بہت چھوٹے بچوں کا قتل عام کر کے مسلح افواج کے دن کو بدنامی کا دن بنا دیا ہے۔ ٹھوس اور مربوط کارروائی کے لیے مزید وقت نہیں بچا۔‘
امریکی صدر جوبائیڈن نے اتوار کو رپورٹروں سے بات چیت میں کہا تھا کہ ان کی انتظامیہ ردعمل پر کام کر رہی ہے۔ تاہم انہوں نے اس حوالے سے تفصیلات نہیں بتائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میانمار میں صورت حال ’قطعی طور پر بہت خراب ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ‘اطلاعات کی بنیاد پر مجھے پتہ چلا کہ بہت بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے ہیں۔ یہ کارروائی مکمل طور پر غیر ضروری تھی۔‘
ایسی صورت میں کہ جب برطانیہ، یورپی یونین اور امریکہ نے پابندیاں عائد کر دی ہیں، اس بات کا امکان نہیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میانمار کی فوجی جنتا کے خلاف ٹھوس کارروائی کے لیے دباؤ ڈالے کیونکہ چین اور روس دونوں یقینی طور پر ایسے کسی اقدام کو ویٹو کر دیں گے۔ دونوں میمانمار کی مسلح افواج کو ہتھیار فراہم کرنے والے بڑے ملک ہیں۔
مہمات کے لیے ایمنسٹی انٹرنینشل کے ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹر منگ یوہا نے کہا ہے کہ ’اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی جانب سے کبھی نہ ختم ہونے والی خوف ناک صورت حال کے خلاف بامعنی کارروائی سے مسلسل انکار قابل نفرت ہے۔‘
رپورٹ کی تیاری میں خبر رساں اداروں سے مدد لی گئی ہے۔
© The Independent