کیا آپ جانتے ہیں کہ حکومت نے عدالتوں میں مختلف نوعیت کے کیس دائر کرنے کی فیس اتنی ہی مقرر کر رکھی ہے جتنی کچہری میں کسی ڈھابے پر ایک پیالی چائے کی قیمت ہوتی ہے؟
لیکن اپنے حقوق کی غرض سے عدالت جانے والے کے تجربے کو اکثر لوگ مضحکہ خیز طور پر ایک ہی جملے میں یوں بیان کرتے ہیں کہ ’خدا کسی کو بھی کچہری کا منہ نہ دکھائے۔‘
آخرعدالتوں میں ان کے ساتھ ایسا کیا ہوتا ہے کہ وہ انصاف کے لیے لڑائی لڑنے سے پناہ مانگتے ہیں۔
58 سال کی سائلہ شبانہ بی بی یہ وجہ کچھ اس طرح بیان کرتی ہیں۔ ’پانچ سے چھ مہینے عدالتوں کے چکروں نے مجھے خون کے آنسو رلا دیا۔‘
شبانہ نے اپنے گھر کی فروخت رکوانے کے لیے 2018 میں اپنے سابقہ شوہرکے خلاف کراچی کی ایک دیوانی عدالت میں دعویٰ دائر کیا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ یہیں سے ایک ایسی قانونی جنگ کا آغاز ہوا جسے وہ بمشکل چند مہینوں تک جاری رکھ سکیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’اگر آپ (عدالت میں ) کیس کرنا چاہتے ہیں تو پھر یہ سمجھیں کہ اپنے گھر اور بچوں کے اخراجات کو ایک طرف رکھ کر آپ کو محض کیس کے اخراجات، سرکاری عملے کے ’چائے پانی‘ اور وکیلوں کی فیس ادا کرنے سے ہی فرصت نہیں ملے گی۔‘
کہانی کچھ یوں ہے کہ شادی کے بعد شبانہ بی بی اور ان کے شوہر نے مشترکہ طور پر سرجانی کے علاقے میں ایک 200 گز پر محیط مکان خریدا تھا۔
بقول شبانہ کے مکان کی 90 فیصد رقم خود انہوں نے اپنی ماہانہ آمدنی سے ادا کی تھی جبکہ ان کے شوہر نے صرف 10 فیصد رقم شامل کی تھی۔
لیکن طلاق کے اپنے حصے کی رقم کی وصولی کی خاطر ان کے سابق شوہر نے جب مکان کو بیچنے کا ارادہ کیا تو شبانہ اپنے بچوں کے سر کی چھت بچانے کے لیے عدالت جا پہنچیں۔
وہ کہتی ہیں ان کا یہ تجربہ بہت تلخ رہا۔ ’پہلے تو یہ ہوا کہ یکے بعد دیگرے تین وکیلوں نے میرا کیس لیا اور اپنی طے شدہ فیس ایڈوانس میں وصول کر لی۔
’لیکن پیسے لینے کے بعد وہ عدالت میں دکھائی ہی نہیں دیے۔ انہوں نے مجھ سے ساڑھے چھ لاکھ روپے اینٹھے بغیر کوئی کام کیے۔
’بالآخر میں نے چوتھا وکیل کیا جس سے کیس کی فیس ڈھائی لاکھ روپے طے ہوئی۔ آخرکار مجھے میرے گھر کی فروخت کے خلاف عدالت سے عارضی حکم امتناعی مل گیا۔‘
اس کے باوجود چند ماہ بعد شبانہ بی بی نے کیس کو مزید آگے بڑھانے کی بجائے اپنے سابق شوہر کے ساتھ ’عدالت سے باہر سمجھوتہ‘ (آوٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ) کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس کی وجہ انہوں نے بتائی کہ ’کیس کے اخراجات مزید برداشت کرنا مشکل تھا اس لیے میں نے عدالت سے باہر ہی معاملے پر سمجھوتہ کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
تاہم تین برس گزر چکے ہیں اور گھر کی ملکیت کا معاملہ اب بھی کھٹائی میں پڑا ہے کیونکہ سابقہ میاں بیوی تاحال کسی باہمی سمجھوتے پر نہیں پہنچ سکے جس مقصد کے لیے انہوں نے خود عدالتی کارروائی رکوا دی تھی۔
کیا کیس دائر کرنے کی کوئی فیس ہوتی ہے؟
ہرسال کراچی بارایسوسی ایشن سالانہ ڈائری چھپوا کر وکیلوں کو فراہم کرتی ہیں تاکہ وہ اپنے کیسوں کی روزانہ کی بنیاد پر یادداشت درج کر سکیں۔
میری نظر سے اس ڈائری کے کچھ صفحات گزرے جن پر حیرت انگیز طور پر دلچسپ معلومات تحریر تھیں۔
یہ تھا مختلف نوعیت کے کیس دائرکرنے کی فیسوں کا میزانیہ جسے حکومت نے مقرر کر رکھا ہے۔
کورٹ فیس کا میزانیہ
میزانیے کے مطابق چھوٹی عدالتوں (یعنی کچہری میں قائم) دیوانی اورفوجداری عدالتوں میں پسند کی شادی سے لے کر طلاق اور زمین کی ملکیت کا دعویٰ دائر کرنے کی فیس جو ایک سائل خرچ کرتا ہے وہ محض 17 روپے ہے، جس میں 15 روپے دعوے کی فیس اور دو روپے حلف نامے کی ہے۔
اسی طرح عدالت عالیہ (ہائی کورٹ) میں آئینی درخواست دائر کرنے کی فیس 100 روپے ہے جبکہ اضافی طور پر وکیل کے وکالت نامے کی فیس پانچ روپے اورسائل کی جانب سے حلف نامے کی فیس 30 روپے ہے۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ملک کی عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ آف پاکستان) میں بھی کیس دائر کرنا بہت مہنگا نہیں۔
حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کرنے کی فیس 200 روپے مقرر ہے جبکہ نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کی فیس 15 ہزار روپے ہے۔
’ملزم عدالت کا چہیتا بچہ ہے‘
سینیئر کریمنل وکیل محمد فاروق کہتے ہیں کہ برطانوی کریمنل جیورس پروڈنس میں لکھا ہے کہ ’ملزم عدالت کا چہیتا بچہ ہے۔‘
انہوں نے بتایا ’چونکہ پاکستان میں برطانوی طرز کا آئین اور قانون آج تک نافذ ہے اسی لیے پاکستانی حکومت کے قوانین کے مطابق کسی کریمنل کیس میں ملوث ملزمان کواپنے دفاع کا کیس دائرکرنے کی کوئی فیس حکومت کو ادا نہیں کرنی پڑتی کیونکہ کریمنل کیس دراصل ریاست کے ہی خلاف لڑا جاتا ہے۔‘
مسکراتے ہوئے وکیل محمد فاروق مزید کہتے ہیں کہ ’اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر کوئی ملزم کسی وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی مالی استطاعت نہیں رکھتا تو عدالت اسے سرکاری خرچے پرایک وکیل فراہم کرنے کا حکم دیتی ہے جو اس کا دفاع کرے۔‘
اس کے برعکس دیوانی کیسز کی طرح فوجداری کیس میں بھی جو چیز سائل/ ملزم کے آڑے آتی ہے وہ ہے وکیل کی پروفیشنل فیس۔
وکیل کی جیب اس کی پشت پر؟
سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج فیصل احمد صدیقی بتاتے ہیں کہ روایات کے مطابق صدیوں پہلے انگلستان میں بادشاہ کی طرف سے چند پڑھے لکھے لوگوں کو مقرر کیا گیا تھا کہ وہ عوامی شکایات دربار میں پیش کر سکیں۔
وہ لوگ یہ فرائض مقدس جان کر بغیر کسی فیس کے رضاکارانہ طور پر سرانجام دیتے تھے۔
بعد میں عوام کی سہولت اور ایسے افراد کو معاوضہ ادا کرنے کی غرض سے طے پایا گیا کہ ایک تھیلی نما جیب ان کے کوٹ (یا پوشاک) کی پشت پر لٹکا دیا جائے تاکہ سائل اپنی حیثیت کے مطابق معاوضہ (سکے) اس میں ڈال دیا کریں جسے بغیر دیکھے قبول کر لیا جائے گا۔
جب قانون کا باقاعدہ شعبہ قائم ہوا تو عدالتیں قائم کی گئیں اور قانون کی تعلیم کے لیے لندن میں سکول آف لا سے بیرسٹرز پیدا ہوئے تو جج اور وکیل کے لیے کالے رنگ کا یونیفارم متعارف کرایا گیا۔
جبکہ وکلا کے کوٹ یا ’گاؤن‘ کی پشت پرایک ڈوری کے ساتھ چھوٹی سی ’علامتی جیب‘ بھی لٹکا دی گئی تاکہ یہ روایت اوراحساس زندہ رہے کہ عوام کے لیے انصاف کے حصول کی کاوش ایک مقدس پیشہ تھا، ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔
پاکستان سمیت دنیا بھرمیں آج بھی وکلا، خصوصاً وہ جو اعلیٰ عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں، کے گاؤن کی پشت پرایک چھوٹی سی جیب لٹک رہی ہوتی ہے۔
اگر گذشتہ صدیوں میں وکالت کے شعبے میں جدت توآئی ہے لیکن یہ جیب محض ایک ’علامت‘ ہی بن کررہ گئی ہے۔
کیا وکلا کی فیس مقرر ہے؟
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک بھرمیں نومبر 2021 تک زیر التوا کیسوں کی تعداد 21 لاکھ سے زائد تھی۔
ان میں اعلیٰ عدالتوں میں دائر آئینی نوعیت کے کیسوں کی تعداد کم جبکہ ماتحت عدلیہ میں دائر دیوانی اور فوجداری نوعیت کے کیسوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
پاکستان بارکونسل اورسپریم کورٹ بارایسوسی ایشن ملک میں وکالت کے شعبے کے لیے ضابطہ اخلاق اور ججوں کی تعیناتی سمیت مختلف فرائض سرانجام دیتے ہیں۔
تاہم یہ دونوں اعلیٰ ادارے گذشتہ 70 سالوں میں وکلا کی پروفیشنل فیس مقرر کرنے کے معاملے پر اپنی معذوری ظاہر کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے موجودہ صدر احسن بھون کہتے ہیں کہ ’یہ ہو نہیں سکتا۔ یہ کیس کی نوعیت پر منحصر ہے۔
’کسی کیس کی 10 ہزار فیس بھی ہوتی ہے، کسی کیس کی 10 کروڑ بھی فیس ہوتی ہے۔ جتنا کوئی ٹائم دے گا اتنی فیس ہو گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’جتنا آپ کسی سے کام لیتے ہیں اتنی ہی فیس دینی پڑتی ہے۔ کسی کیس پر مہینوں لگتے ہیں کسی پر سالوں۔‘
’کیس جینے کے بجائے زندگیاں ہار جاتے ہیں‘
کراچی میں 18 دسمبر، 2018 کی ایک سرد صبح تھی جب 54 سالہ رحمت اللہ شیخ زمین کی ملکیت سے متعلق اپنے کیس کی شنوائی کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔
چند افراد نے مبینہ طور پر سرجانی میں ان کی 25 ایکڑ اراضی پر غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔
اس سے پہلے کہ فاضل عدالت کے جج کیس کی شنوائی کرتے رحمت اللہ کو اچانک کمرہ عدالت میں دل کا دورہ پڑا جو ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔
ان کے وکیل شاہ محمد میتلو نے بتایا کہ ’رحمت اللہ دو تین سالوں کے دوران وکیلوں کی فیسیں اور دیگر عدالتی اخراجات کی مد میں تقریباً ایک کروڑ روپے خرچ کر چکے تھے۔‘
’جب وہ میرے پاس آئے تو ان کے پاس عدالت میں ہونے والے روزمرہ اخراجات کے لیے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے۔
’یہاں تک کہ چھوٹے موٹے خرچے میں خود اپنی جیب سے کرتا تھا کیونکہ میں ان کا کیس انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر لڑ رہا تھا۔‘
’سستے عدل کی تحریک مہنگی پڑ رہی ہے‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نومبر2007 میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور وکلا نے وقت کے فوجی آمر صدر جنرل پرویز مشرف کی ملک میں آئین کو معطل کرنے کے خلاف تاریخی ملک گیر تحریک شروع کی۔
13 مہینوں تک وکلا ہر جمعرات کو ملک بھرمیں عدالتی کاروائیوں کا بائیکاٹ کرتے، اس کے نتیجے میں ملک بھر میں زیر التوا کیسوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی۔
اگرچہ معزول ججوں اور وکلا نے بارہا وعدہ کیا کہ اگر عوام ’آئین کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی اور ججوں کی بحالی‘ کی تحریک میں ان کا ساتھ دیں تو مستقبل میں بینچ اور بار مل کر انہیں سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔
کیا سستا اور فوری انصاف ممکن ہوا؟
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے شریک چیئرمین اسد اقبال بٹ کا کہنا ہے کہ ’بدقسمتی سے عدلیہ کی بحالی کے دوران سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے عوام سے کیے جانے والے وعدے وفا نہیں کیے گئے۔‘
نتیجتاً ایک طرف لاکھوں سائل بحالت مجبوری انصاف حاصل کرنے کی خاطر بھاری رقم خرچ کرنے پر مجبور ہیں جبکہ دوسری طرف شبانہ بی بی جیسے لوگ مزید پیسے نہ ہونے کے باعث ’آوٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ‘ پر مجبور ہیں۔
یا پھر کمرہ عدالت ہی میں دنیا سے گزر جانے والے رحمت اللہ کے خاندان کی طرح وکلا کی فیسیں نہ ادا کر سکنے کی وجہ سے کیس مزید نہ چلنے کے صورت میں انصاف کی فراہمی کی امید کھو چکے ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون لکھاری کی ذاتی رائے پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔