تحریک انصاف کو عوام نے تبدیلی کے نام پر ووٹ دئیے اور عمران خان کو وزارت عظمی تک پہنچایا۔ کرپشن کے خلاف کارروائی اور کفایت شعاری تحریک انصاف کا مقبول ترین نعرہ رہا ہے۔ اب یہ نظر آتا ہے کہ تبدیلی سرکار نے اپنی ہی کفایت شعاری مہم ہوا میں اڑا دی ہے۔
صدر مملکت کی کفایت شعاری مہم کے برعکس ایوان صدارت میں ہونے والی شاہ خرچیوں کی ایک اور داستان سامنے آئی ہے۔ ایوان صدر کا مہنگا ترین مشاعرہ پہلے ہی سوشل میڈیا کی زینت بن چکا ہے۔ اب طوطے کے پروٹوکول کا بھی بندوبست کیا جارہا ہے۔ حقیقت مقبول عام نعرہ کے برخلاف ہے۔ ایوان صدر میں طوطے کے لیے پنجرے کی تعمیر کی خبر نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی ہے کہ آخر یہ پنجرہ بنایا کس کے لیے جاری رہا ہے۔ کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر (سول) ایوان صدر محمد فاروق اعظم کے دستخط سے اخبارات میں ٹینڈر جاری کیا گیا ہے۔ صرف طوطے کے لیے 19 لاکھ 48 ہزار روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ عوام کی جانب سے تنقید کے بعد صدر ڈاکٹر عارف علوی کو اس کی تردید کرنی پڑی۔ ایوان صدر کے ترجمان نے جاری بیان میں کہا ہے کہ صدر مملکت نے اس ٹینڈر کی تشہیر کا سخت نوٹس لیا ہے اور اسے واپس لے لیا ہے۔ ترجمان کہتے ہیں صدر صاحب نے اس اشتہار کی تحقیقات کا حکم بھی دے دیا ہے اور 19 لاکھ 48 ہزار مالیت کا یہ اشتہار مجاز اتھارٹی کی اجازت کے بغیر جاری کیا گیا ہے۔ شائد اسی نوعیت کی سادگی پر شاعر نے کہا ہو گا۔
اللہ رے سادگی نہیں اتنی انہیں خبر
میت پہ آکے پوچھتے ہیں ان کو کیا ہوا
صدر عارف علوی کی اس سادگی پر کیسے یقین کیا جاسکتا ہے؟ ان کی مرضی کے بغیر لاکھوں روپے کا پنجرہ بنایا جائے اور انہیں خبر تک نہ ہو؟ اس ٹینڈر کی تشہیر پر بھی اخبارات کو لاکھوں روپے دیے گئے ہیں۔ صدور مملکت کتنے زیرک ہوتے ہیں یہ دیکھنے کے لیے سابق صدر غلام اسحاق خان مرحوم کو یاد کرتے ہیں۔ 1988 سے 1993 تک صدرات کی مسند پر براجمان ہونے والے سابق صدر غلام اسحاق خان کو ایک روز افطاری میں میٹھے کی روائیتی جلیبی گراٹو پیش کی گئی۔ انہوں نے ایک پیس کھانے کے بعد باقی واپس کر دی۔ اگلے روز افطاری پر انہوں نے وہی بچی ہوئی گراٹو جلیبی طلب کی تو ایوان صدر کے کچن حکام کی دوڑیں لگ گئیں۔ فوری طور پر ایوان صدر سے مرسڈیز نکلی اور کچھ فاصلے پر سپر مارکیٹ سے تازہ جلیبی سابق صدر کے لیے لائی گئی۔ گرما گرم جلیبی صدر مملکت کی خدمت میں پیش ہوئی۔ تین حکومتیں گرانے کے ماہر غلام اسحاق خان اسے ہاتھ میں لیتے ہی گویا ہوئے، یہ تو تازہ ہے کل والی کہاں ہے؟ مجھے تو وہی جلیبی چاہیے۔ یہ تھے غلام اسحاق خان مرحوم اور آج ہمارے صدر جو ڈینٹسٹ ہیں اور ان سے چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی پوشیدہ نہیں رہ سکتی تو انہیں کیسے معلوم نہیں کہ ایوان صدر میں طوطے کا پنجرہ کون بنوانا چاہتا ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آصف علی زرداری کے دور صدارت میں ایوان صدر کے اندر اصطبل کی تعمیر کے ٹینڈر کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر خوب چرچا رہا۔ اس ٹینڈڑ کی خبر سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی سے جاری کی گئی تھی۔ رپورٹر سمیت کئی لوگوں کی نوکری یہ ٹینڈر کھا گیا۔ 1996 میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت ہٹائی گئی تو اصطبل سے غیر ملکی مربوں کے ڈرم نکلے تھے۔ ان ہی چیزوں کو لے کر تحریک انصاف مسلسل بیان بازی کرتی رہی۔ لیکن آج وہ بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ سابق صدر آصف زرداری نے گھوڑوں کے اصطبل کا ٹٰینڈر دیا تھا تو موجودہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے طوطے کے پنجرے کے لیے ٹینڈر دے دیا۔ لوگوں کا کہنا ہے پھر سابقہ حکمرانوں اور اور موجودہ حکمرانوں میں کیا فرق رہ گیا ہے؟ حکومت خود اپنی کفایت شعاری مہم اور اپنے نعروں کی دھجیاں اڑا رہی ہے۔ بعض افراد کے نزدیک بجٹ سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے اس طرح کے ایشو نکالے جارہے ہیں۔ اور کچھ کہتے ہیں بجٹ کی منظوری سے قبل نئے طوطوں کی ممکنہ آمد کا انتظام کیا جارہاہے۔ طوطے کسی بھی نسل کے ہوسکتے ہیں۔ باقی خدا بہتر جانتا ہے۔