پاکستان کے ایوان بالا یا سینیٹ میں سینیٹرز کا آزاد کہلوانے والا ایک گروپ گذشتہ دنوں سٹیٹ بینک ترمیمی بل کی منظوری کی حمایت کی وجہ سے شدید تنقید کی زد میں آیا۔ یہ گروپ کیا ہے اور کیوں بار بار خبروں میں رہتا ہے؟
حکومت اور حزب اختلاف کے بینج پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں کسی بھی نئی قانون سازی کے لیے شدید عددی جنگ میں مصروف رہتے ہیں۔ سینیٹ میں حزب اختلاف کے اراکین کی زیادہ تعداد کے باوجود گذشتہ دنوں اسے سٹیٹ بینک پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ آزاد گروپ اس وجہ سے اہمیت دوبارہ اختیار کر گیا۔
حکمراں پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت سینیٹ میں اراکین کی کم تعداد کے باوجود ہر مشکل وقت میں حزب اختلاف پر عددی برتری حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے، اور ایسا اکثر و بیشتر دلاور خان گروپ کی حمایت کے باعث ہی ممکن ہوا۔ دلاور خان گروپ نے بھی سٹیٹ بینک ترمیمی بل 2021 کی حمایت کی تھی۔
سینیٹ کی ویب سائٹ کے مطابق اس وقت آزاد اراکین کی تعداد 25 ہے جن میں سے بلوچستان عوامی پارٹی کا کہنا ہے کہ چھ ان کے ہیں۔ ایسے میں دلاور گروپ بھی اپنے آپ کو چھ اراکین پر مشتمل بتاتا جس میں تین باپ جماعت کے ہیں۔
پارلیمان کی رپورٹنگ کرنے والے اسلام آباد کے سینیئر صحافی ایم بی سومرو کا انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا: ’عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی حکومت کو ضرورت پڑتی ہے، دلاور خان گروپ سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز حکومت کے حق میں ووٹ استعمال کرتے ہیں۔‘
اس کی سب سے بڑی مثال عددی کمتری کے باوجود حکومت کے حمایت یافتہ محمد صادق سنجرانی کی بحیثیت چئیرمین سینیٹ موجودگی ہے، جن کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی دلاور خان گروپ کے تعاون سے ناکام ہوئی تھی۔
اس گروپ کے سربراہ دلاور خان نے سوموار کو ایوان میں ان پر کی جانے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے وضاحت کی کہ وہ نہ حکومت اور نہ ہی اپوزیشن کا حصہ ہیں لیکن ملک اور قوم کی بہتری کے لیے جو قانون سازی کی ضرورت ہوگی وہ اس کی حمایت کریں گے۔
سینیٹ میں فنانس بل کی منظوری کے وقت اپنے کردار کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کا گروپ ’دینے والا ہاتھ ہے، لینے والا نہیں۔ ہم مراعات یافتہ نہیں ہیں۔ ملک اور قوم کی خاطر کوئی بل آتا ہے تو اس کی حمایت کرتے رہیں گے۔‘
اپنے گروپ کو ’ٹاک آف دا ٹاؤن‘ قرار دیتے ہوئے دلاور خان نے کہا کہ ’ان سے چرس نہیں پکڑی گئی ہے جو گناہ گار قرار دیا جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دلاور خان گروپ ہی کے تعاون سے حکومت ماضی میں سینیٹ میں حزب اختلاف کی صفوں میں بھی دراڑیں ڈالتی رہی ہے، جس کی ایک مثال گذشتہ سال مسلم لیگ ن کی مخالفت کے باوجود پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی کا قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے منتخب ہونا تھا۔
سینیٹ کے انتخابات میں آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے اراکین ابتدا میں اگر کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں ورنہ پھر وہ آزاد رکن کے طور پر رہتے ہیں۔
دلاور خان گروپ کیسے بنا؟
پارلیمان کے ایوان بالا میں حزب اختلاف میں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعتوں کے علاوہ دوسری کئی پارٹیوں کے سینیٹرز شامل ہیں۔
سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کے علاوہ حزب اختلاف کی نشستوں پر چھ اراکین ایسے بھی ہیں، جو خود کو اپوزیشن کے اندر ایک الگ گروپ کی حیثیت سے متعارف کرواتے ہیں۔
اس گروپ میں خیبر پختونخوا سے سینیٹر دلاور خان، سابق فاٹا کے سینیٹرز ہدایت اللہ اور ہلال رحمن اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے حمایت سے منتخب ہونے والے سینیٹرز کہدہ بابر، احمد خان اور نصیب اللہ بائیزئی شامل ہیں۔
سینیٹر دلاور خان اس گروپ کے سربراہ ہیں، اس لیے اسے دلاور خان گروپ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
دلاور خان گروپ کے سینیٹرز 2018 کے سینیٹ انتخابات میں منتخب ہوئے اور 2021 کے شروع تک حکومت کے حمایتی رہے۔
تاہم گذشتہ سال مارچ میں ایک دلچست پیش رفت میں ان چھ سینیٹرز نے اپوزیشن میں شمولیت کا اعلان کیا۔
سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے انتخاب میں دلاور خان گروپ نے مسلم لیگ ن کے اعظم نذیر تارڑ کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی کی حمایت کر کے انہیں اپوزیشن لیڈر بننے میں مدد فراہم کی۔
سینیٹ میں حزب اختلاف کا حصہ بننے کے بعد دلاور خان گروپ دوسرے کئی موقعوں پر پینترا بدلتے ہوئے حکومتی قانون سازی کی حمایت کر کے اپوزیشن کی عددی برتری کو کمی میں تبدیل کرتے رہے ہیں۔
اس سلسلے میں گذشتہ سال نومبر میں سینیٹ میں پیش اور اجلت میں منظور کروائے جانے والے 33 بل، نیب کے پراسیکیٹر جنرل کی تعیناتی سے متعلق قانون سازی اور حالیہ سٹیٹ بنک ترمیمی بل جیسی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
کئی سال سے پارلیمنٹ کی رپورٹنگ کرنے والی صحافی اور وی بلاگر حرا حمید کا کہنا تھا کہ دلاور خان گروپ ایک بااثر گروہ ہے، جو پیسے والے بھی ہیں، اور جب چاہیں سمت بدل لیتے ہیں۔
’چونکہ سینیٹ میں حکومت کی اکثریت نہیں ہے، تو یہ گروپ پوشیدہ قوتوں کے اشاروں پر چلتے ہوئے تحریک انصاف کو ایوان میں برتری دلواتا رہتا ہے۔‘
ایم بی سومرو کا کہنا تھا کہ دلاور خان گروپ کا اتنا اثر رسوخ ہے کہ انہوں نے اپوزیشن کے حصے کی سینیٹ کی پانچ کمیٹیوں کی سربراہی بھی حاصل کر رکھی ہے، جبکہ بوقت ضرورت وہ ووٹ حکومت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
تاہم دلاور خان گروپ کے سینیٹر کہدہ بابر الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے حکومتی بینچوں سے حکومت کے ساتھ اختلافات کے باعث علیحدگی اختیار کی اور اب اپوزیشن کا حصہ ہیں۔ اس بیان کے برعکس بظاہر انہوں نے ووٹ حکومت کے مجوزہ بل کو ہی دیا۔
سینیٹر دلاور خان نے سینیٹ میں خطاب میں کہا کہ یوسف رضا گیلانی کی قائد حزب اختلاف کے لیے حمایت کی وجہ مسلم لیگ نواز کے امیدوار سے جان پہچان نہ ہونا تھی۔
انہوں نے واضح کیا کہ سٹیٹ بنک کے قانون کی حمایت چار حکومتی وزرا سے بریفنگ لینے کے بعد کی گئی۔ ’ہم سمجھتے ہیں کہ سٹیٹ بنک ترمیمی بل 2021 پاکستان کے لیے ضروری ہے اور اسی لیے ہم نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔‘
دلاور خان کون ہیں؟
خیبر پختونخوا کے دوسرے بڑے شہر مردان کے علاقے پار ہوتی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر دلاور خان کسٹمز میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ تھے۔
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور حکومت کے دوران انہیں نیب نے کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا تھا، تاہم 2001 میں انہوں نے پلی بارگین کر لیا۔
مردان کے صحافی اشرف خان کے مطابق دلاور خان سگریٹ کے کارخانے کے مالک ہیں، اور سیاسی جوڑ توڑ میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں۔
’دلاور خان عام طور پر خرچہ کرنے سے گریز نہیں کرتے اور تعلقات بھی بناتے ہیں، جس کے باعث ان کا اثر رسوخ زیادہ ہے۔‘
ابتدائی طور پر دلاور خان کا تعلق پاکستان مسلم لیگ ن سے رہا ہے، اور 2018 میں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں انہیں اسی جماعت کی حمایت حاصل تھی۔
تاہم بعد ازاں مسلم لیگ نواز کے ساتھ ان کے اختلافات پیدا ہوئے اور سینیٹ میں انہوں نے تحریک انصاف حکومت کی حمایت کی، جو گذشتہ سال تک جاری رہی۔
دلاور خان کے بھائی اعظم خان اور برخوردار عدنان خان بھی پاکستان کی سیاست میں حصہ لیتے ہیں، اور ماضی کے انتخابات بھی لڑتے رہے ہیں۔