صحافیوں کے لیے بجٹ کچھ نہیں لاتا

بجٹ پیش کیا گیا جس میں مزدور کی کم سے کم تنخواہ 17500 رکھی گئی مگر آج بھی بہت سے کارکن دس ہزار روپے سے بھی کم پر ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ بجٹ میں کم سے کم رکھی گئی تنخواہ تو اس وقت حقیقت کا روپ دکھارے گی جب یہ باقاعدگی سے ادا بھی ہو۔

(رویٹرز)

صحافیوں کو میں نے دیگر شعبوں سے جڑے افراد کے مقابلے میں سب سے زیادہ پسا ہوا، غریب، مایوس اور ہر وقت دوسروں سے مالی فوائد کی راہ تھکتے ہوئے دیکھا ہے۔ جو ایک عاد صحافی سکرین پر نمودار ہوتے ہیں یا اخبار کے کالم نگار ہیں ان کے علاوہ باقی اکثر صحافیوں کو مہینوں مہینوں تنخواہ نہیں ملتی جس پر وہ چپ چاپ آواز اُٹھانے سے قاصر ہیں۔

پشاور کے مختلف وٹس اپ نیوز گروپ میں کچھ دن پہلے ایک میسیج شیئر ہوتا ہے کہ اس دور حکومت میں میڈیا پالیسی کے تحت بےروزگار ہونے والے پشاور کے ایک ویڈیو جرنلسٹ کی بیوی پشاور کے بڑے ہسپتال میں داخل ہے۔ اس کے پاس بیوی کے علاج کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ ہسپتال کا پی آر او توجہ دے کر اس کے علاج کا بندوبست کرے۔ پی آر او سب کام چھوڑ کر اس کی مدد کے لیے کوشش کرتا ہے اور صحافی کی بیوی کا علاج ہوجاتا ہے۔

اس واقعے کی جانب جب نظر کرتا ہوں تو مجھے پریس کلب اور صحافیوں کی یونین پر افسوس ہوتا ہے اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اسی طرح عید پر ایک کہانی دوست سے معلوم ہوتی ہے کہ ایک صحافی غریب کے لیے آواز اٹھا کر بڑے ایوانوں تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔ رات سیاسی افطاری میں ایک سیاست دان کو کھری کھری بھی سنا دیتا ہے۔ ہوٹل سے واپسی کے بعد جب سٹوری فائل کرکے آفس سے  نکلتا ہے تو بیوی کی کال آتی ہے کہ عید کے لیے تین دن رہ گئے ہیں بچوں کے لیے کوئی خریداری نہیں ہوئی۔ کیا آپ کی تنخواہ آگئی ہے؟ وہ اے ٹی ایم مشین کی جانب چلا جاتا ہے لیکن کئی بار کوشش کے باوجود کچھ نہیں ملتا کیونکہ سیلری ٹرانسفر نہیں ہوئی۔ وہیں پر دو موٹی موٹی گالیاں نظام اور چینل کے مالک کو دے کر گھر واپسی ہوتی ہے۔ بیوی سہیلی سے قرض لے کر عید منانے کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔

یہ کہانی سچی تھی تو سوچا کہ اسے شئیر کرتا چلوں اور موجودہ امسال پیش ہونے والے بجٹ کے ساتھ نتھی کروں کہ گذشتہ دنوں 2019/20کا سالانہ بجٹ پیش کیا گیا جس میں مزدور کی کم سے کم تنخواہ 17500 رکھی گئی مگر آج بھی بہت سے کارکن دس ہزار روپے سے بھی کم پر ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ بجٹ میں کم سے کم رکھی گئی تنخواہ تو اس وقت حقیقت کا روپ دکھارے گی جب یہ باقاعدگی سے ادا بھی ہو۔ صحافت وہ شعبہ ہے جس کے مزدروں کو حکومت مزدور ہی تصور نہیں کرتی اور نہ ہی میڈیا مالکان انہیں انسان سمجھتے ہیں۔ بجٹ میں تنخواہ سے انہیں کوئی لینا دینا نہیں ہوتا جبکہ وہ دوسروں کو تنخواہوں میں اضافے کی نوید سناتے ہیں۔ شاید صحافی ہی پاکستان کا واحد طبقہ ہے جو ہر وقت اووروں کے لیے میدان جنگ گرم رکھتے ہیں مگرخود اپنے لیے نہ بول پاتے ہیں اور نہ بول پائیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میڈیا میں کام کرنے والے ہزاروں ملازمین کی تنخواہیں کئی برسوں سے نہیں بڑھیں، بجٹ آتے جاتے رہتے ہیں۔ ان کی تنخواہوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ویج بورڈ کا ہر وقت واویلا مچانے والے صحافیوں سے مالکان آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ جب بھی صحافی، کیمرا مین یا عملے کا کوئی اور رکن مالکان کے پاس جاتا ہے تو اسے یہ کہا جاتا ہے کہ ادارہ اس وقت مالی مشکلات کا شکار ہے جس کی وجہ سے وہ تنخواہ وقت پر ادا نہیں کر پا رہے ہیں۔ ایسے میں تنخواہ بڑھانے کا تقاضا سراسر بیوقوفی ہے۔

  دوسری جانب حیرانی کی بات یہ ھے کہ یہ لوگ اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے ظلم کے خلاف احتجاج تو کیا دو لفظ بھی نہیں بول سکتے۔ سب سے حیران کن اور قابل غور بات تو یہ بھی ہے کہ اضلاع، تحصیل سے کام کرنے والوں کو تنخواہ تو کیا سکیورٹی بھی نہیں ملتی۔

اگر یہی کارکن بلامعاوضہ یا کم تنخوا پر کام کرنے سے انکار کر دیں تو میڈیا مالکان خود جا کر ویج بورڈ کے مقرر کردہ پالیسی سے بڑھ کر دینے کو تیار ھو جائیں گے۔ مگر ایسا ہونا ناممکن نظر آتا ہے۔ امید شوکت یوسفزئی سے صحافیوں نے رکھی تھی مگر وہ اپنے اخبارات کے لیے کام میں مصروف ہوگئے اور صحافیوں کو راستے میں یوں ہی چھوڑ دیا۔

میری دعا ہے اور دلی خواہش کہ سارے صحافی متفق ھو جائیں ورنہ شاید ہی مستقبل میں کوئی اپنے بچوں کو اس شعبے میں لانے کا سوچے گا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ