جب خودکش حملہ آوروں نے 15 مارچ 2015 کو لاہور میں سینٹ جانز کیتھولک چرچ اور کرائسٹ چرچ کو نشانہ بنایا تو 20 سالہ آکاش بشیر نے اپنی جان پر کھیل کر ایک حملہ آور کو روکا جس سے درجنوں جانیں بچ گئیں۔
اب لاہور کے علاقے یوحنا آباد کے اس مسیحی نوجوان کو ایسا اعزاز حاصل ہوگیا جو تاریخ میں کچھ ہی شخصیات کو حاصل ہوا ہے۔ کیتھولک مسیحیوں کے مرکز ویٹیکن نے انہیں ان کی بہادری کے عوض ’سرونٹ آف گاڈ‘ یا ’خدا کے بندے‘ کا خطاب دیا ہے، جس کے بعد وہ اب سینٹ ہڈ کے امیدوار ہیں۔
ویٹیکن نیوز کے مطابق وہ پاکستان کے پہلے شخص ہیں جنہیں سینٹ کے درجے کے لیے امیدوار چنا گیا ہے۔
Akash Bashir has become Pakistan's first official candidate for sainthood. He died as a martyr while seeking to prevent a suicide bomber from entering a packed Catholic church in 2015.https://t.co/M2JbhLNO35
— Vatican News (@VaticanNews) February 1, 2022
لاہور کے آرچ بشپ سبیسٹین شاہ کے مطابق اس وقت کی سکیورٹی صورت حال کے پیش نظر پولیس نے چرچوں کی حفاظت کے لیے برادری کے رضاکاروں کی بھی درخواست کر رکھی تھی اور یوں آکاش نے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا۔
15 مارچ 2015 کی صبح 11 بجے کا وقت تھا اور چرچ میں ہزاروں افراد عبادت میں مصروف تھے کہ دو خود کش بمبار آئے۔ آرچ بشپ سبیسٹین شاہ کے مطابق ایک نے چرچ میں داخل ہونے کی کوشش کی جسے آکاش نے گیٹ پر ہی روک لیا۔ ’اس پر خود کش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اس طرح آکاش نے چرچ میں عبادت کرنے والوں کو بچانے کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔‘
ویٹیکن کے اعلان کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا: ’یہ اعزاز ان لوگوں کو ملتا ہے جو اپنے لوگوں کے لیے کوئی خاص کارنامہ سرانجام دیتے ہیں۔ اسے دینے سے پہلے آکاش کی پوری جانچ پڑتال ہوئی کہ وہ اخلاقی اور روحانی طور پر کیسا شخص تھا۔ اس طرح کی کئی تحقیقات کی گئیں۔ اس تحقیق کے لیے ویٹیکن سے بھی لوگ یہاں آئے۔‘
انہوں نے بتایا کہ یہ اعزاز کوئی پلیٹ یا شیلڈ کی صورت میں نہیں ہوتا بس اس کا صرف اعلان ہوتا ہے، یہ ایک ٹائٹل ہوتا ہے جو صرف کیتھولک مسیحیوں کو دیا جاتا ہے۔
20 سالہ آکاش لاہور کے ڈان باسکو ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کے طالب علم تھے۔
ان کی والدہ ناز بانو نے بتایا کہ ان کا بیٹا رضاکارانہ طور پر چرچ کی حفاظت کے لیے جایا کرتا تھا۔ ’میں نے اسے کہا بھی کہ تم نہ جایا کرو، دیکھا نہیں پشاور چرچ میں کیا ہوا، تو وہ کہتا تھا آپ کو اچھا نہیں لگتا کہ میں خدا کے گھر کی حفاظت کرتا ہوں؟‘
انہوں نے بتایا کہ وہ اتوار کا دن تھا جب وہ چرچ نہیں گئیں۔ انہوں نے سنا دھماکہ ہوا تو ذہن میں بیٹے کا خیال آیا۔ ’میں گھر سے اپنے چھوٹے بیٹے کو لے کر نکلی، لوگ بھاگ رہے تھے معلوم ہوا کہ دونوں چرچوں میں دھماکہ ہوا ہے۔ میں بھاگتے لوگوں میں بیٹے کو تلاش کر رہی تھی کہ شاید وہ مجھے دکھائی دے جائے یا وہ مجھے خود دیکھ لے۔ مگر ایسا نہ ہوا، جب چرچ پہنچی تو زمین پر دھول مٹی میں ایک لاش پڑی تھی۔ میرے بیٹے رامش نے کہا یہ آکاش ہے لیکن مجھے یقین نہ آیا پھر جب غور سے دیکھا تو وہ آکاش ہی تھا۔‘
آکاش کے چھوٹے بھائی رامش نے بتایا کہ اس سانحے کے بعد سے بہت سے غیر ملکی مسیحی برادری کے لوگ ان کے ہاں آ رہے تھے اور آکاش کے حوالے سے پوچھ رہے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ آکاش کو ’خدا کے بندے‘ کا خطاب دینے کے لیے اس کے حوالے سے معلومات اکٹھی کی جا رہی تھیں۔ اور پھر انہوں نے دو روز قبل ڈان باسکو ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کی ویب سائٹ پر دیکھا کہ آکاش کو ویٹیکن نے یہ خطاب دے دیا ہے۔
آکاش کا خاندان یوحنا آباد میں ہی رہتا ہے۔ ان کے والد مکان کو رنگنے کا کام کرتے ہیں۔ ان کی ایک بہن سکول میں پڑھاتی ہیں۔
آکاش کی والدہ کا کہنا ہے: ’مجھے اس بات کی تسلی ہے کہ میرا بیٹا ایک اچھے کام کے لیے دنیا سے گیا نہ کہ کسی نشے یا کوئی اور غلط عادت میں پڑ کر۔ میرا دکھ تو بہت بڑا ہے لیکن اس بات کی خوشی بھی ہے کہ اس نے اپنی جان دے کر سینکڑوں جانیں بچا لیں جس کا انعام اسے اس دنیا میں دیا جا رہا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ موت تو کہیں بھی آسکتی ہے اس لیے ایسے سانحات سے خوفزدہ نہیں ہوتے۔ ’اگر موت خدا کے گھر میں آجائے تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟‘
ویٹیکن نیوز کے مطابق سینٹ ہڈ ایک طویل عمل ہے اور ’سرونٹ آف گاڈ‘ کا خطاب اس کا پہلا قدم ہے۔ اس مقصد کے لیے کسی بھی مقدس شخص یا ہلاک ہونے والے کے کاموں کو دستاویزی شکل دینے کا کام اس کی موت کے پانچ سال تک شروع نہیں ہوسکتا لیکن اگر پوپ چاہیں تو یہ وقت کم کیا جاسکتا ہے۔
اس عمل کے ڈائوسیسن مرحلے میں امیدوار کو ’خدا کے بندے‘ کا خطاب دیا جاتا ہے جو آکاش کے معاملے میں ہوا۔ اس مرحلے میں اس شخص کی زندگی اور فضائل پر گواہی کا اجتماع شامل ہے۔ اس کے علاوہ، سرکاری اور نجی تحریروں کو جمع اور جانچنا ضروری ہے۔
اس کے بعد ویٹیکن کے مذہبی ماہرین اس بات کی یقین دہانی کرتے ہیں کہ جو دستاویزات ہیں وہ امیدوار کے تقدس اور موت کو ثابت کرنے کے لیے کافی اور قابل اعتماد ہیں۔
اس مرحلے کے اختتام پر، پوپ امیدوار کی بہادرانہ خوبیوں کے بارے میں ایک حکم نامہ جاری کرتے ہیں، جس میں اسے ’خدا کے قابل احترام خادم‘ کا خطاب دیا جاتا ہے۔
اگلا مرحلہ اس شخص کو ’مبارک‘ کا خطاب ملنا ہے۔ ایک امیدوار کے لیے، اس کی شفاعت سے معجزانہ شفا کو بیٹفیکیشن سے پہلے ثابت کرنا ہوگا۔ تاہم، آکاش جیسے جان کھونے والے امیدوار کے لیے اس مرحلے پر معجزے کی ضرورت نہیں ہے۔
آخر میں سینٹ ہڈ کے لیے جب کسی شخص کو رسمی طور پر اس کی تقریب میں سینٹ قرار دیا جاتا ہے تو اس شخص کی شفاعت کے ذریعے ایک اور معجزہ ثابت کرنا ہوتا ہے۔
ادھر پشاور میں 2013 میں ایک عدالت نے چرچ پر حملے میں ہلاک ہونے والے ایک مسیحی پولیس اہلکار کے خاندان کو بھی شہدا پیکج معاوضہ دینے کا حکم دیا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس لعل جان خٹک اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل بینچ نے بدھ کو ہلاک ہونے والے پولیس اہلکار امتیاز ریاض کی اہلیہ کرسٹیانا امتیاز کی شہدا پیکج میں سے امداد دینے کی درخواست منظور کر لی۔
یہ مسیحی اہلکار پشاور کے کوہاٹی کے علاقے میں 22 ستمبر 2013 کو خودکش حملے میں سو دیگر افراد کے ساتھ ہلاک ہوئے تھے۔
اس مقدمے میں حکومت کا موقف تھا کہ امتیاز، جو کنٹریکٹ ملازم تھے، چرچ میں ڈیوٹی پر نہیں بلکہ سروس میں شرکت کے لیے وہاں گئے تھے لیکن عدالت نے یہ کہہ کر یہ جواز مسترد کر دیا کہ شہدا پالیسی میں ایسی کوئی شرائط درج نہیں ہیں۔