بلوچستان کے علاقوں نوشکی اور پنجگور میں بلوچ مزاحمت کاروں کے حالیہ حملوں کے بعد صوبائی مشیر داخلہ ضیا لانگو نے کہا ہے کہ ’دہشت گروں کو ایرانی علاقوں سے مدد مل رہی ہے‘ جب کہ ان حملوں کے بعد پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر سید محمد علی حسینی نے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد پر زور دیا ہے۔
صوبائی مشیر داخلہ ضیا لانگو نے کہا ہے کہ ’ضروری نہیں کہ ان کو ایران کے سرکاری حکام مدد دے رہے ہوں بلکہ یہاں کے لوگوں کی ایران میں رشتے داریاں ہیں۔ آنا جانا بھی لگا رہتا ہے۔ غیر ریاستی عناصر کی مدد بھی ہوسکتی ہے۔ اس لیے وہاں سے ان کو آسان رسائی حاصل ہے۔‘
ضیا لانگو نے واضح کیا کہ ’ہماری بارڈر منیجمنٹ کی ایران کے ساتھ ملاقات ہوتی ہے۔ ہم نے اس مسئلے کو وہاں پر اٹھایا۔ جنہوں نے ہمیں یقین دہانی کرائی کہ وہ اس پر کارروائی کریں گے۔‘
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایرنا نے پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر سید محمد علی حسینی کی ایک ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ ’بلوچستان میں دہشت گردوں کا حملہ افسوس ناک ہے جس میں کئی جانوں کا نقصان ہوا۔ دہشت گردی کی تمام شکلوں کی مذمت کے ساتھ میں اس کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی ضرورت پر بھی زور دوں گا۔‘
ایرانی سفیر نے حکومت پاکستان اور عوام سے تعزیت کا اظہار بھی کیا۔
’پنجگور اور نوشکی میں کلیئرنس آپریشن مکمل‘
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا کہ ’پنجگور اور نوشکی میں آپریشن کے دوران 20 دہشت گرد مارے گئے اور سیکورٹی فورسز نے آج کلیئرنس آپریشن مکمل کر لیا ہے۔‘
بیان کے مطابق: ’دہشت گردوں نے دو فروری کی شام نوشکی اور پنجگور میں سکیورٹی فورسز کے کیمپوں پر حملہ کیا۔ دونوں مقامات پر پاکستان فوج کی فوری جوابی کارروائی کے ذریعے دونوں حملوں کو ناکام بنا دیا گیا۔‘
آئی ایس پی آر کے مطابق نوشکی میں نو دہشت گرد مارے گئے نیز فائرنگ کے تبادلے میں ایک افسر سمیت چار فوجی جان سے گئے۔
بیان میں کہا گیا کہ ’پنجگور میں فرار ہونے والے چار دہشت گرد مارے گئے جب کہ اگلے روز سکیورٹی فورسز نے چار دہشت گردوں کو گھیرے میں لے لیا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ آج کے آپریشن میں تمام محصور دہشت گرد مارے گئے کیونکہ وہ ہتھیار نہیں ڈال رہے تھے، پنجگور میں 72 گھنٹے جاری رہنے والے فالو اپ آپریشن کے دوران جے سی او سمیت پانچ فوجی جان سے گئے چھ فوجی زخمی ہوئے۔
بیان کے مطابق ’ان حملوں سے منسلک تین دہشت گرد بھی کل مارے گئے۔‘
ایران کی مبینہ مداخلت
بلوچستان کے حالات، مسائل اور شورش سمیت حقوق اور احساس محرومی پر گہری نظر رکھنے والے لکھاری اور تجزیہ کار رفیع اللہ کاکڑ سمجھتے ہیں کہ ’جب تک یہاں کے بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دی جائے گی۔ کوئی نہ کوئی ہتھیار اٹھانے والا مل ہی جائے گا۔‘
رفیع اللہ کاکڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’تاریخی اعتبار سے ایران بلوچ شورش اور قوم پرستی کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ لیکن اب وہاں بلوچ مسئلہ اتنا بڑا معاملہ نہیں سمجھا جاتا۔‘
رفیع اللہ نے اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’شاہ کے بعد کا ایران ایک بدلہ ہوا ملک ہے۔ یہ بڑی حکمت عملی سے اپنے مفادات کو دیکھتا ہے۔ موجودہ ایران آزاد بلوچستان کے لیے مدد نہیں کرے گا بلکہ وہ ایسا ماحول بنانا چاہے گا کہ بعد میں سودے بازی کا موقع بن سکے۔‘
شدت پسندی میں تیزی
رفیع کہتے ہیں کہ ’کم شدت والی ایک شورش بلوچستان میں چل رہی ہے۔ یہ نئی چیز نہیں ہے۔ ہر وقت تین چار مہینے میں کوئی حملہ ہو جاتا تھا۔ لیکن افغانستان سے امریکہ کا نکلنا اور طالبان کے کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد بلوچ تنازعے پر کئی طرح کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔‘
’پہلا تو یہ کہ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد شاید جو مزاحمت کار وہاں موجود تھے وہ واپس آ گئے ہیں۔ ان میں کچھ مرو یا مارو والی پوزیشن میں ہیں۔ دوسری طرف امریکہ کے نکلنے کے بعد ان کے ہاتھ اسلحہ لگ چکا ہے۔ تیسرا یہ کہ جب تک امریکہ یہاں موجود تھا تو کم از کم وہ استحکام چاہتا تھا۔ اس کے نکل جانے کے بعد تو خطے کے ممالک کھل کرمیدان میں آ گئے ہیں۔‘
بلوچستان مسئلہ ہے کیا؟
رفیع اللہ کاکڑ کہتے ہیں کہ ’بلوچستان کا مسئلہ اندرونی ہے۔ یہاں پر احساس محرومی، حقوق پر ڈاکہ، وسائل پر قبضہ۔ یہ حقیقی مسائل ہیں۔ مسلح مزاحمت کاروں کے علاوہ ہر بلوچ یا بلوچستانی اس کو مانتا ہے۔ جب تک یہ شکایت رہے گی تو کوئی نہ کوئی ہتھیار اٹھانے والا اور سپاہی بھرتی کے لیے مل ہی جائے گا۔‘
نوشکی اور پنجگور حملوں کا ذمہ دار کون؟
بلوچستان میں شدت پسندی کی حالیہ لہر پر بات کرتے ہوئے رفیع اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حالیہ مزاحمت میں تیزی کی ایک وجہ مزاحمت کاروں اور اسلحے کی افغانستان سے آمد ہے۔ دوسری طرف یہ سکیورٹی کی ناکامی ہے کہ اتنے سارے لوگ شہر میں کہاں سے آئے۔‘
سکیورٹی امور کے ماہر اور تجزیہ کار محمد عامر رانا کے مطابق ’بلوچستان کے حالات ایسے نہیں کہ عراق اور شام جیسے ہو جائیں۔‘
عامر رانا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’شورش کی استعداد میں اضافہ ایک مسئلہ ہے۔ جس کے لیے ریاست کے اداروں کو اپنی لڑائی کی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔‘
عامر نے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’مستقبل میں شدت پسندی کی لہر جاری رہ سکتی ہے۔ جسے کو روکنے کے لیے طالبان کی موئثر مدد درکار ہے۔ جو اس وقت ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔‘
بلوچ مزاحمت کار گروپ مجید بریگیڈ کیا ہے؟
بلوچستان میں مسلح مزاحمت کار گروہوں نے مشترکہ کارروائیوں کے لیے مختلف اتحاد بنا رکھے ہیں۔ ایسی ہی ایک نئی تنظیم بلوچ نیشنلسٹ آرمی بھی ہے۔
نوشکی اور پنجگور کے حملوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی ذیلی تنظیم مجید بریگیڈ نے قبول کی ہے۔ جو اپنے حملوں میں فدائی استعمال کرنے پر یقین رکھتی ہے۔
اس تنظیم کے قیام کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ اس وقت وجود میں آئی جب 1975 میں ایک نوجوان مجید نے اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو پر خود کش حملے کرنے کی کوشش کی لیکن دستی بم ہدف پر پہنچنے سے قبل ہی پھٹ گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مجید بریگیڈ کے قیام کا اعلان مارچ 2010 میں اسلم بلوچ نامی ایک مزاحمت کار نے کیا۔ بعد میں اسلم بلوچ مزاحمت کار حلقوں میں ’جنرل اسلم‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔
اس تنظیم نے پہلی کارروائی کوئٹہ کے ارباب کرم روڈ پر کی تھی۔ جس میں دسمبر 2011 کو سابق وفاقی وزیر نصیر مینگل کے بیٹے شفیق مینگل پر ایک خود حملہ ہوا تھا۔
حملے میں شفیق مینگل محفوظ رہے لیکن ان کے ساتھی مارے گئے۔
اس کے بعد 11 اگست، 2018 میں دالبندین میں سیندک منصوبے پر کام کرنے والے چینی باشندوں کی گاڑی پر خود کش حملہ۔ پھر نومبر 2018 کو کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ بھی اسی تنظیم نے قبول کیا تھا۔
دسمبر 2018 میں تنظیم نے اپنے سربراہ اسلم بلوچ کے مارے جانے کی تصدیق کی۔
2019 میں اس تنظیم نے سب سے بڑا حملہ گوادر میں پرل کانٹیننٹل ہوٹل پر کیا۔ جس میں چار حملہ آور شریک تھے۔ اس کے بعد جون 2020 میں کراچی اسٹاک چینج پر حملے کی ذمہ داری بھی اسی تنظیم نے قبول کی تھی۔