ثروت نجیب گذشتہ برس افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد امریکہ چلی گئی تھیں اور وہاں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں مقیم ہیں۔
کیمپ میں بچوں کی تربیتی کلاس کا انتظام ہوا تو سب سے پہلا سبق جو سکھایا گیا وہ تھا نائن ون ون کا۔ بچوں کو جھوم کر، ناچ کر، گا کر نائن ون ون ایسے رَٹوا دیا گیا کہ وہ گھر کا پتہ بھول سکتے ہیں مگر یہ تین ہندسے نہیں۔
کلاس سے نکلتے ہی ہر بچے کی زبان پہ یہی تین نمبر تھے۔ وہ کھیلتے کودتے، ہاتھ دھوتے، شیمپو لگاتے وقت اس سبق کو دہرانے لگے حتیٰ کہ ٹوائلٹ سے بھی نائن ون ون کی آوازیں آنے لگیں۔
ہسپتال کے ایمرجنسی، پولیس اور فائر بریگیڈ کے لیے استعمال ہونے والے یہ نمبر ان کے لیے بہت کارآمد ہیں۔ کبھی بھی کسی بھی وقت بچوں کو اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ عصر قضا کا وقت تھا، میرے شوہر بیٹوں کو ساتھ لے گئے کہ چمن تک جاتے ہیں۔ چھوٹے بیٹے کو بخار تھا، اسے میں نے دوا پلا کر سلا دیا تھا۔ بیٹی میری پاس بیٹھی کریون سے ڈرائنگ کر رہی تھی۔ میں کپڑے سمیٹنے لگی۔
اتنے میں اچانک اتنی بھیانک آواز گونجی اور دروازے کے اوپر لگی بتی سے تیز روشنی نکلنے لگی۔ الارم ٹاں ٹاں کرتا کان پھاڑنے لگا۔ میرا چھوٹا بیٹا جاگتے ہی رونے لگا۔ بیٹی مجھ سے چپک گئی۔ دونوں بےتحاشا رو رہے تھے۔ میں نے بیٹے کو گود میں اٹھایا اور دونوں کو باہر نکال لائی۔
بیٹی کہنے لگی، ’مورے، کہیں طالبان تو نہیں آ گئے؟‘
میں نے اسے کہا، ’نہیں بیٹا، یہ فائر بریگیڈ کا الارم ہے ابھی بند ہو جائے گا۔‘ اسے کچھ تسلی ہوئی۔ دو سالہ بیٹا آواز سے ڈر گیا تھا، چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ باہر ٹھنڈی ہوائیں اور ہلکی ہلکی پھوار شروع تھی۔ سردی ناقابل برداشت تھی۔ میں خود حیران تھی کہ اچانک فائر بریگیڈ کا الارم کیوں بجنے لگا ہے۔ باہر جا کر پتہ چلا پڑوسی کے بیٹے شریپے نے فائربریگیڈ کا بٹن دبا دیا ہے۔ اس کی ماں ہنستے ہنستے اس کا کارنامہ بیان کرنے لگی۔
نام تو اس کا شریف ہے مگر سب اسے ’شریپ شریپ‘ کہتے ہیں۔ اس دن وہ شریف شرارت کر بیٹھا۔ میں دوبارہ کنٹینر کی جانب جانے لگی۔ میرے بچے مجھ سے لپٹ گئے۔ بیٹی کہنے لگی، ’اندر مت جاؤ مورے، مجھے ڈر لگتا ہے۔‘ میں خود پریشان کہ اندر نہ گئی توبچے ٹھنڈ سے سکڑ جائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خیر میں دوبارہ اندر گئی اور کمبل لے آئی۔ اب میں اپنے بچوں کے ساتھ گیلی سیڑھیوں پر کمبل اوڑھے بیٹھی تھی۔ فائر بریگیڈ ٹیم آئی، سارجنٹ اور پولیس بھاگتے دوڑتے جمع ہو گئے۔ بٹن دبانے والے شریپ نے کہا، ’دراصل میں چیک کر رہا تھا کہ نائن ون ون والا بٹن دبانے سے کیا ہوتا ہے؟‘
مجال ہے جو فائر بریگیڈ ٹیم میں سے کسی نے اس گول مٹول شریپے کو کچھ کہا ہو۔
مجھے تو اس کی بتیسی دیکھ کر غصہ آ رہا تھا۔ ایک تو ایسی بھیگی بارش میں بٹن دبا دیا، اوپر سے ہنس ہنس کر اس کا برا حال ہے جیسے کابل فتح کر لیا ہو۔
دیوانہ کہیں کا !
تھوڑی دیر بعد دوسری گلی کا کنٹینر ٹاں ٹاں کرنے لگا اور پولیس، فوج، فائر بریگیڈ پھر اتنی ہی مستعدی سے وہاں پہنچے۔ وہاں بھی کوئی بچہ دیکھنا چاہتا تھا کہ نائن ون ون والے اس کے گھر بھی آتے ہیں کہ نہیں۔
ٹیم واپس پلٹنے والی تھی کہ کسی اور کنٹینر کا الارم بجنے لگا۔ میں تب تک بچوں کو تسلی دے کر اپنے موبائل سلیپر میں واپس آ چکی تھی۔ ہمارے سلیپر میں دوبارہ سکون تھا۔ مگر جیسے جیسے دن گزرتے گئے، یہ چرواہے والا قصہ بن گیا جو جھوٹ موٹ کہا کرتا، ’شیر آیا شیر آیا۔‘
اب دن میں کئی بار الارم بجنے لگے، ٹیم بھاگی دوڑی آتی اور مایوس ہو جاتی۔ آگ تو کیا کنٹینر میں دھواں بھی نہیں ہوتا تھا۔ اب بھی ہر روز الارم بجتا ہے مگر ٹیم پانچ منٹ میں نہیں پہنچتی بلکہ کئی بار تو آدھے گھنٹے تک الارم بج بج کر کانوں میں صور پھونکتا رہتا ہے۔ کنٹینر والے منہ بنائے سلیپر کے باہر بیٹھے، بٹن دبانے والے بچے کو کوس رہے ہوتے ہیں۔ فائر بریگیڈ کے ارکان کی ٹیم گپیں لگاتی آتی ہے اور چپ کرکے چابی سے الارم بند کرکے چلے جاتے ہیں۔
دھیرے دھیرے مجھے سمجھ آنے لگی ہے کہ نظام کیسے برباد ہوتے ہیں اور اس بربادی میں عوام کا کتنا ہاتھ ہوتا ہے۔ میں تو اب بھی امریکی فوج کے حوصلے کو داد دیتی ہوں کہ نہ جھڑکتے ہیں، نہ ڈانٹتے ہیں نہ ہی رعب جماتے ہیں۔ الٹا اب بھی تربیتی کلاس میں بچوں کو کہا جاتا ہے، یاد رکھیں نائن ون ون۔ انہیں کیا پتہ ہمارے بچے صرف یاد نہیں رکھتے عملی طور پہ مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔