اسلام آباد کے رہائشی محمد فیضان غیر ملکی ویب سائٹ پر کاروبار کرنے کے خواہش مند ہیں، تاہم پاکستان میں ٹیکس قوانین اور بیرون ملک ادائیگیوں اور وصولیوں میں مسائل کے باعث ایسا کرنا ممکن نہیں ہو پا رہا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے 18 سالہ فیضان کا کہنا تھا: ’آئی ٹی کے اس کاروبار کے لیے میری تیاری مکمل ہے، لیکن پاکستان میں پیسے بھیجنے یا وصول کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے۔‘
دوسری طرف غیر ملکی کمپنیوں کے لیے آئی ٹی فری لانسر کے طور پر کام کرنے والے صداقت مجید (فرضی نام) کو پاکستان کے مرکزی بینک اور ایف بی آر سے شکایات ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’غیر ضروری طور پر تنگ کیا جاتا ہے، حالانکہ میں پورا ٹیکس دینے کو تیار ہوں اور ساری قانونی کاروائی پوری کرنے کے لیے بھی راضی ہوں۔‘
گذشتہ دو سال سے آئی ٹی فری لانسر کے طور پر کام کرنے والے صداقت مجید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں اپنا کاروبار رجسٹر کروانے کی کوئی خواہش نہیں ہے، کیوں کہ اس سے ان کے مسائل میں اضافہ ہو گا۔
برطانوی تعلیمی ادارے آکسفورڈ یونیورسٹی کے انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ کی تیار کردہ آئی لیبر انڈیکس کے مطابق پاکستان آئی ٹی فری لانسرز کے حوالے سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔
آکسفورڈ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستانی آئی ٹی فر لانسرز اپنے غیر ملکی کلائنٹس کو سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ، کری ایٹیو اینڈ ملٹی میڈیا اور سکرپٹ رائیٹنگ اور ترجمے کی خدمات پیش کرتے ہیں۔‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت لگ بھگ 10 لاکھ آئی ٹی فری لانسرز ہیں، جنہوں نے گذشتہ سال جولائی سے دسمبر کے دوران 20 کروڑ امریکی ڈالرز سے زیادہ زرمبادلہ کمایا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے رکن سینیٹر افنان اللہ کے مطابق ’اس وقت دنیا میں ہیکنگ سے بچنے کے لیے کمپنیوں کو فری لانسرز کی ضرورت ہے، اور پاکستان سے بڑی تعداد میں پروفیشنلز اس میدان میں کام کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہیکنگ زیادہ ہونے کے باعث اس میدان میں کام کرنے والے فری لانسرز کی اہمیت بڑھ گئی ہے، اور ان کی آمدنیوں میں بھی کئی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔‘
پاکستان میں آئی ٹی کے شعبے کے ذمہ دار ادارے نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (این آئی ٹی بی) کے مطابق پاکستان آئی ٹی فری لانسرز کا 62 فیصد شمالی امریکہ کی کمپنیوں کے لیے کام کرتے ہیں، جبکہ کئی ایک یورپی منڈیوں سے بھی کاروبار حاصل کر رہے ہیں۔
آئی ٹی فری لانسرز کے مسائل
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے منگل کو اجلاس میں نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (این آئی ٹی بی) کے چیف ایگزیکٹیو سید عباس زیدی نے بتایا کہ ’فری لانسرز کا سب سے بڑا مسئلہ اپنے آپ کو رجسٹر کروانا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اکثر فری لانسرز حکومتی محکموں اور اداروں سے ڈیل کرنے سے کتراتے ہیں، اور اسی لیے رجسٹریشن سے بھی دور رہتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اکثر فری لانسرز نے اب کئی کئی ملازمین رکھ لیے ہیں، اور یہ چھوٹی چھوٹی کمپنیاں ملک کے لیے بڑا زرمبادلہ کما رہی ہیں۔‘
تاہم آئی ٹی فری لانسر صداقت مجید کا کہنا تھا کہ رجسٹریشن کروانے سے ان کے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک آئی ٹی فری لانسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے سرکاری دفاتر کے چکروں سے بچنے کے لیے اپنا کاروبار دبئی شفٹ کر دیا ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان میں رہ کر اپنے فری لانسنگ کے کام کو آگے نہیں لے جا سکتے تھے، کیوں کہ مختلف سرکاری محکموں نے انہیں تنگ کرنا شروع کر دیا تھا۔
صداقت مجید کا کہنا تھا: ’سچی بات ہے میں سرکاری دفتروں میں جانے سے ڈرتا ہوں، اور ایک دفعہ پھنس گیا تو پھر اپنے کام کو وقت نہیں دے سکوں کا، بس دفتروں کے چکر ہی لگاتا رہوں گا۔‘
این آئی ٹی بی کے چیف ایگزیکٹیو سید عباس زیدی نے کہا کہ ’آئی ٹی فری لانسرز کی سرکاری محکموں کے متعلق غلط فہمیاں دور کرنے کی غرض سے ان کا سیشن بھی منعقد کیا گیا ہے۔‘
’اس میں ہم نے کئی فری لانسرز کو بلایا اور انہیں ایف بی آر، سٹیٹ بنک، ایس ای سی پی اور دوسرے محکموں کے افسران کے ساتھ بٹھایا تاکہ ان کی پاکستانی قوانین سے متعلق معلومات میں اضافہ ہو۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس مشق کے نتیجے میں کئی ایک فری لانسرز نے رجسٹریشن کروانے کی حامی بھری ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حقیقتاً فری لانسرز کے اعتراضات درست ہیں، اور وہ دفتری کارروائیوں سے بچنے کے لیے کئی ایک غیر ضروری ٹیکس بھی ادا کر رہے ہیں۔‘
سید عباس زیدی نے کہا کہ ’این آئی ٹی بی نے مختلف حکومتی اداروں سے فری لانسرز کے مسائل اٹھائے ہیں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ایسے قوانین بنائے جائیں جن کے تحت فری لانسرز کو آسانیاں ہو سکیں۔‘
آئی ٹی فری لانسرز کے مطابق ان کا ایک اور مسئلہ بیرون ملک پیسہ بھیجنا اور وصول کرنا ہے، جس کے لیے پاکستان میں ذرائع بہت کم ہیں۔
اس حوالے این آئی ٹی بی کے سربراہ نے کہا کہ ’اکثر فری لانسرز نے دوسرے ملکوں میں بینک اکاونٹس بنائے ہوئے ہیں، اور ان کے ذریعے پے پال جیسی سروسز کو استعال کر رہے ہیں۔‘
سینیٹر افنان اللہ کا کہنا تھا کہ ’پے پال کا پاکستان میں اپنا آپریشن شروع کرنا بہت مشکل ہے کیوں کہ اس میں اسلام آباد پر فیٹف کی پابندیاں آڑے آرہی ہیں۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ ’کئی ایک پاکستانی سٹارٹ اپ کمپنیاں بن چکی ہیں جو یہ حل فراہم کرتی ہیں اور حکومت کو ان کمپنیوں کے ذریعے فری لانسرز کو سہولتیں مہیا کرنی چاہییں۔‘
سینیٹر افنان اللہ نے تجویز دی کہ این آئی ٹی بی کو فری لانسرز کو آئی ٹی کے میدان میں مختلف سرٹیفکیشنز حاصل کرنے میں معاونت کرنا چاہیے۔
ان کے مطابق ’اس سے ان کو دنیا بھر میں زیادہ کام ملے گا اور ملک کے لیے وہ زیادہ زرمبادلہ کما سکیں گے۔‘
این آئی ٹی بی کے سید عباس زیدی نے کہا کہ ’ان کے ادارے نے فری لانسرز کو کامیاب جوان کے تحت قرضے دینے، روشن پاکستان ڈیجیٹل اکاونٹ کھولنے کی سہولت فراہم کرنے کے فیصلے بھی کیے ہیں۔‘
انہوں نے وضاحت کی کہ روشن پاکستان ڈیجیٹل اکاونٹس کے ذریعے فری لانسرز اپنی رقوم باآسانی بیرون ملک غیر ملکی کرنسی میں بھجوا اور وصول کر سکیں گے۔