گذشتہ برس اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغان خواتین اپنی تعلیم اور ملازمت جاری رکھنے کے حوالے سے خاصی تشویش کا شکار رہیں، تاہم اب انہیں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کام کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
ایسے میں ایک افغان خاتون ڈاکٹر کو توقع ہے کہ مزید خواتین بھی اپنی ملازمتوں پر واپس آئیں گی۔
ملالئی رحیم فیضی کو حال ہی میں افغانستان کے سب سے بڑے زچگی ہسپتال کا فزیشن اِن چیف مقرر کیا گیا ہے۔
وہ گذشتہ سال طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اس طرح کے عہدے پر مقرر ہونے والی پہلی خاتون ڈاکٹر ہیں۔
ملالئی زیژنتون ہسپتال کی فزیشن ان چیف ملالی رحیم فیضی کا کہنا ہے کہ ’حکومت تبدیل ہونے کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا فطری ہے۔ یہ ایک بڑی سیاسی تبدیلی تھی لیکن مسائل بتدریج حل ہو جاتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا: ’میں مستقبل کے حوالے سے پُر امید ہوں۔ 400 سے زائد ملازمین اور عملے میں سے تقریباً 95 فیصد خواتین ہیں اور وہ نئی انتظامیہ کے ماتحت کام کر رہی ہیں۔ طالبان نے کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملالئی کے مطابق: ’خواتین صحت کے شعبے میں سرگرم ہیں اور پہلے کی طرح ہسپتالوں میں کام کر رہی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ خواتین جلد ہی معیشت، قانون اور ادب سمیت دیگر شعبوں میں کام پر واپس آئیں گی۔‘
اگست 2021 کے آخر میں امریکی انخلا کے بعد طالبان انتظامیہ نے کچھ اساتذہ اور صحت کے شعبے میں کام کرنے والوں کے علاوہ دیگر خواتین سرکاری کارکنوں کو گھر میں رہنے کا حکم دیا ہے۔
حکام کے مطابق سابق حکومت کی خواتین ملازمین کو گھر میں رہتے ہوئے بھی تنخواہیں مل رہی ہیں۔
ہسپتال میں گذشتہ دو ماہ سے تنخواہیں ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی (آئی سی آر سی) کی جانب سے ادا کی جا رہی ہیں۔
آئی سی آر سی کابل کے مزید نو ہسپتالوں کو بھی ادویات اور طبی سازوسامان فراہم کرتا ہے۔