پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما رحمٰن ملک نے 90 کی دہائی میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی ملازمت چھوڑنے کے بعد سیاست میں قدم رکھا اور سالوں کا سفر مہینوں میں طے کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی قائد اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور سابق صدر آصف علی زرداری کے قریب ترین ساتھیوں میں شمار ہونے لگے۔
ان کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ رحمٰن ملک نے جس کام میں بھی ہاتھ ڈالا، اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما قمر الزمان کائرہ اور رحمٰن ملک 2008 سے 2013 تک سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی کابینہ میں وزیر رہے تھے۔ رحمٰن ملک وزیر داخلہ جبکہ قمرالزمان کائرہ وفاقی وزیر اطلاعات تھے۔ قمر الزمان کائرہ کہتے ہیں کہ ان کا رحمٰن ملک کے ساتھ کابینہ میں جتنا بھی وقت گزرا بہت اچھا گزرا اور ان کا آپس میں بہت اچھا تعلق تھا۔
رحمٰن ملک کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں قمر زمان کائرہ نے بتایا: ’رحمٰن ملک بہت محنتی اور معاملہ فہم آدمی تھے۔ انہوں نے چوں کہ پہلے ملازمت کی ہے تو وہ سروس سٹرکچر سے آگاہ تھے۔ اس کے بعد وہ سیاست میں آئے تو اس میں بھی کامیاب رہے۔ وہ میڈیا کو ہینڈل کرنا بھی اچھے طریقے سے جانتے تھے اور سیاست کے جدید تقاضوں سے بھی آگاہ تھے۔ اپنی جماعت کے ساتھ ان کی وابستگی بھی مثالی رہی۔ وہ ہمارے بہت اچھے ساتھی تھے۔‘
رحمٰن ملک کے ترجمان ریاض علی طوری کی جانب سے انڈپینڈنٹ اردو کو فرہم کی گئی تفصیلات کے مطابق انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے 1973 میں شماریات میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی، جس کے بعد 1974 میں انہوں نے بطور جونیئر لیکچرار اسی یونیورسٹی میں پڑھایا۔
1975 سے 1986 تک رحمٰن ملک نے بیورو آف امیگریشن میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر، اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور پروٹیکٹر آف امیگرینٹس کام کیا۔
رحمٰن ملک نے 1987 میں نیشنل سینٹر بیورو، ایف آئی اے/انٹرپول پاکستان میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر اور انچارج این سی بی انٹرپول اپنی خدمات انجام دیں۔
1989 میں رحمٰن ملک وزارت داخلہ اسلام آباد میں بطور ڈپٹی سیکریٹری اور چیئرمین نیشنل سکیورٹی / حساس تنصیبات تعینات رہے۔
1996 میں رحمٰن ملک نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے مختلف شعبوں میں بطور ڈائریکٹر اور پھر ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کام کیا۔
’سخت اور اصول پسند شخص‘
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی میں رحمٰن ملک کے ماتحت کام کرنے والے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر سجاد مصطفیٰ باجوہ نے انڈپینڈںٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ رحمٰن ملک کام کے حوالے سے سخت اور اصول پسند آدمی تھے اور ان کا تجربہ ان کے ساتھ بہت پیشہ ورانہ رہا۔
بقول سجاد مصطفیٰ: ’رحمٰن ملک نے کبھی کسی کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں، جبکہ کچھ ایسے کیس بھی تھے جن میں پیپلز پارٹی یا کسی اور سیاسی جماعت کے نامور رہنماؤں کے نام بھی شامل تھے مگر رحمٰن ملک نے کبھی ان کیسز کی تحقیقات میں ان پر اثر انداز یا دباؤ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔‘
سجاد مصطفیٰ نے کچھ کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جب 1990 میں وہ ایف آئی اے میں آئے تو اس وقت رحمٰن ملک ڈائریکٹر ایف آئی اے تھے۔
’تب میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد وہ ڈائریکٹر امیگریشن تھے اور پھر ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل رہے۔ 96-1994 کے درمیان کی بات ہے۔ اس وقت میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھا اور لاہور میں امیگریشن اور اینٹی سمگلنگ ونگ کا انچارج بھی۔ اس دوران منشیات کا ایک کیس ہوا جس میں اس وقت کے وزیرخارجہ سردار آصف احمد علی کی چاولوں کی مِل سے کچھ چرس سمگل ہوئی۔ اس کیس کی تحقیقات کے دوران میں نے رحمٰن ملک کے کام کے طریقے کو دیکھا، جو بہت مضبوط اور تیز تھا۔‘
’مجھے منسٹر سردار آصف احمد نے اپنے گھر یا فیکٹری آکر تحقیقات کرنے کا کہا لیکن میں نے انکار کر دیا، میں نے یہ بات رحمٰن ملک کو بتائی اور انہوں نے بغیر کسی دباؤ کے مجھے اجازت دی کہ میں جس طرح چاہوں اس کیس کی تحقیقات کروں اور تحقیقات میں معلوم ہوا کہ ان کی فیکٹری کے کچھ ملازمین ہی تھے جو اس میں ملوث تھے۔‘
سجاد مصطفیٰ نے مزید بتایا: ’اسی تحقیق کے دوران ایک اور مسئلہ ہواکہ ہمیں کوئی لنک نہیں مل رہا تھا۔ ان کا سہولت کار یا ڈیلر یہاں سے کنسائنمنٹ نکلنے سے پہلے برطانیہ جا چکا تھا۔ اسے ٹریس کرنے کے لیے کہ وہ کون ہے اور یہاں اس کے ساتھ کون کون ملا ہوا ہے، یہ سب جاننے کے لیے ہمارے پاس صرف ایک موبائل فون تھا۔ بڑی عید کے دن تھے اور چھٹیوں کی وجہ سے موبائل نیٹ ورک کے دفتر سے ریکارڈ نہیں مل پا رہا تھا، یہاں تک کہ نیٹ ورک والوں کے انچارج سے بھی بات کی مگر کامیابی نہ ہو سکی۔‘
’اس وقت میں نے رحمٰن ملک کو تحقیقات میں آنے والی اس رکاوٹ کا بتایا۔ رحمٰن ملک نے بطور ایڈیشنل ڈی جی نیٹ ورک کی انتظامیہ کو فون کیا اور ان سے سختی سے کہا کہ مجھے جو معلومات چاہیں وہ فراہم کی جائیں کیوں کہ کیس سنجیدہ نوعیت کا تھا۔ ان کی کال کے ایک گھنٹے کے بعد ہمیں معلومات فراہم کر دی گئیں اور ہمارا کیس پایہ تکمیل تک پہنچا اور اصل ملزمان پکڑے گئے۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’جب وہ وزیر داخلہ تھے، اس دوران میں اسلام آباد میں سپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کا انچارج تھا۔ اس وقت چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ خواجہ شریف تنازع سامنے آیا تھا۔ میں اس کا تحقیقاتی افسر تھا، جس میں کہا یہ جارہا تھا کہ پنجاب کی سپیشل برانچ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے کہ کچھ ملزمان کو سابق صدر آصف علی زرداری کے کہنے پر کچھ لوگوں نے رہا کروایا ہے اور ان کے ذریعے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ شریف پر حملہ ہوگا۔‘
سجاد مصطفیٰ کے مطابق: ’اس پر ایک خبر چلی جس پر کمیشن بنا اور اس کمیشن نے اس پر رپورٹ دی۔ اس رپورٹ پر رحمٰن ملک کے آرڈر کے بعد ایف آئی آر درج ہوئی۔ میں نے میرٹ پر اس کیس کی تحقیق کی اور چوں کہ ایف آئی آر وزیر داخلہ کے کہنے پر درج ہوئی تھی تو وہ مجھ پر اثر انداز ہو سکتے تھے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ تحقیقات میں مجھ پر کسی نے دباؤ نہیں ڈالا اور جب ثبوتوں کی روشنی میں ضمانتیں نہیں ہوئیں تو میرے خلاف کسی قسم کی کوئی انتقامی کارروائی بھی عمل میں نہیں لائی گئی۔‘
’جیل میں بھی بادشاہ‘
رحمٰن ملک کے صحافیوں کے ساتھ بھی اچھے تعلقات تھے۔ ان کے ایک قریبی دوست اور سینئیر صحافی و اینکر ستار خان نے رحمٰن ملک کی کچھ دلچسپ باتیں انڈپینڈنٹ اردو سے شیئر کیں۔
ستار خان نے بتایا: ’رحمٰن ملک 96-1993 تک ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل تھے اور اس وقت بھی ان کا شمار پاکستان کی تین طاقتور ترین شخصیات میں ہوا کرتا تھا۔کسی بھی بیوروکریٹ کی ٹرانسفر پوسٹنگ کو رکوانا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’رحمٰن ملک بے نظیر بھٹو کے انتہائی قریب تھے اور اس کی وجہ اس وقت کے وزیر داخلہ ریٹائرڈ جنرل نصیر اللہ بابر تھے۔ انہیں رحمٰن ملک پر بھرپور اعتماد تھا اور انہوں نے ہی انہیں بی بی سے متعارف کروایا اور پھر آہستہ آہستہ یہ سابق صدر آصف علی زرداری کے بھی بہت قریب ہو گئے۔‘
ستار خان کے بقول: ’96-1993کے درمیان نواز شریف اور اتفاق فاؤنڈری کے خلاف جتنے بھی کیسز بنے وہ رحمٰن ملک نے ہی بنائے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ کیسز کمزور تھے یا مضبوط۔ یہاں تک کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے سرکاری کاغذوں میں نواز شریف کے خلاف کیس کی پہلی بنیاد بھی رحمٰن ملک نے ہی رکھی۔‘
انہوں نے بتایا: ’یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف کے خاندان نے ایک قسم کا عہد کیا تھا کہ جب ان کی حکومت آئے گی تو وہ سب کو معاف کردیں گے لیکن رحمٰن ملک کو نہیں، لیکن پھر ایسا وقت آیا کہ میثاق جمہوریت پر انہیں برطانیہ میں رحمٰن ملک کے گھر پر جا کر دستخط کرنا پڑے۔بے نظیر بھٹو اور نواز شریف میں جو میثاق جمہوریت ہوا، اس میں رحمٰن ملک ہر قدم پر ایک اہم کردار ادا کر رہے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ستار خان نے بتایا کہ ’پیپلز پارٹی کے بہت سے لوگوں نے جماعت کے لیے قربانیاں دیں لیکن رحمٰن ملک کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ اگر انہیں کسی شخصیت تک رسائی مل جائے تو وہ تین منٹ میں انہیں اپنا گرویدہ بنانے کا ہنر جانتے تھے۔‘
’یہی صورتحال بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے ساتھ بھی تھی کہ رحمٰن ملک کو ان کا بھرپور اعتماد حاصل تھا۔ اس اعتماد کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ رحمٰن ملک وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو ان کے کاروبار کی دیکھ بھال کرکے مالی فائدہ بھی پہنچایا۔‘
ستار خان نے بتایا کہ ’1996 میں جب بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم ہوئی تو رحمٰن ملک سمیت تین لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور ان پر چار مختلف کیسز بنے۔ رحمٰن ملک کی ایک کیس میں ضمانت ہوئی تو ان کے اپنے ہی ادارے نے انہیں دوسرے کیس میں گرفتار کرلیا، پھر دوسرے میں اور پھر تیسرے میں۔ اسی سلسلے میں وہ ایک سال تک اڈیالہ جیل میں بھی رہے۔‘
ستار خان نے بتایا کہ جب وہ رحمٰن ملک سے ملنے اڈیالہ جیل جایا کرتے تھے تو رحمٰن ملک وہاں بھی ’ایک بادشاہ‘ کی طرح رہتے تھے۔ ’یہاں تک کہ اس وقت جو سپرنٹنڈنٹ جیل تھے وہ بھی اگر کسی مسئلے میں پھنستے تھے تو رحمٰن ملک کے کان میں آکر کوئی بات کرتے اور رحمٰن ملک ان کے کان میں کچھ کہتے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ سپرنٹنڈنٹ کسی مسئلے کا حل پوچھنے آیا کرتے تھے یعنی جیل میں بیٹھ کر وہ وہاں کے مسائل بھی حل کردیا کرتے تھے۔‘
ستار خان نے بتایا کہ رحمٰن ملک لوگوں کو قائل کرنے کا گُر جانتے تھے۔ ’میں انہیں طاقتور اور محنتی آدمی کے طور پر جانتا ہوں کہ جس چیز کی ذمہ داری وہ لے لیتے تھے، اسے پایہ تکمیل تک پہنچاتے تھے۔‘
رحمٰن ملک کے ترجمان ریاض علی طوری کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق رحمٰن ملک کئی اہم قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین اور رکن بھی رہے، جن میں نیوکلیئر کمانڈ اتھارٹی اور کمیشن برائے مصالحت و ترقی برائے بلوچستان بھی شامل ہے۔ رحمٰن ملک کو کراچی یونیورسٹی سے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی دی گئی۔
رحمٰن ملک کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ عرصے کے لیے رہنے والے وزیر داخلہ تھے۔ ایف آئی اے میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے ستارہ شجاعت دیا گیا جبکہ 2012 میں صدر پاکستان نے انہیں ان کی خدمات پر ملک کا سب سے بڑا ایوارڈ ستارہ امتیاز دیا۔ سینیٹر رحمٰن ملک نے پانچ کتابیں بھی تحریر کی تھیں۔
ان کے سوگواران میں اہلیہ اور دو بیٹے شامل ہیں۔