سعودی عرب کے شہری بالخصوص نوجوان فیشن کمیشن کے سربراہ کی عوام سے اپنے روایتی لباس، میک اپ اور زیورات پہننے کی اپیل کے جواب میں سڑکوں پر نکل آئے۔
اس ماہ کے شروع میں فیشن کمیشن کے سربراہ ترکی الشیخ اور جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹرٹینمنٹ کی طرف سے کی گئی درخواست میں لوگوں کو یوم تاسیس کی قومی تقریب کے لیے روایتی سعودی لباس پہننے اور اپنے علاقوں کے نمائندے ہونے کی اپیل کی گئی تھی۔
اس تجویز کی وجہ سے نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کو مختلف کپڑوں، میک اپ اور زیورات میں ملک بھر میں سڑکوں پر آنے کا موقع ملا۔
اس ایونٹ کو ملک گیر سٹریٹ فیسٹیول کی پہلی مثال سمجھا جا سکتا ہے۔ گذشتہ شب ریاض میں موجود غیرملکی سیاحوں نے روایتی سعودی کپڑوں کی نمائش پر حیرانی اور مسرت کا اظہار کیا۔ یہ وہ لباس تھے جو شاید خود سعودی عرب کے شہریوں نے پہلے صرف تھیٹر اور ٹیلی ویژن سیریز میں دیکھے تھے۔
مدینہ کی رہنے والی لینا الحسینی نے سفید لباس اور مغربی علاقے کی شال پہنی ہوئی تھی۔ انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’اس طرز کا لباس صرف خاص مواقع پر پہنا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا، ’ہماری دادی اسے شادیوں اور دیگر مواقع پر پہنتی تھیں، جیسے کہ بچے کی پیدائش، اور مرد سر پر پٹیاں پہنتے تھے۔ یہ وہی ہے جو ہم ہمیشہ رمضان اور شعبان کے مہینوں میں پہنتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معتز موسیٰ الدوسری نے نجدی (وسطی علاقہ) کا روایتی لباس پہنا تھا، جو ان کے والدین، دادا دادی اور پردادا کی میراث ہے۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا، ’یہ ایک ثقافت، رسوم و رواج، روایات، اصول اور ہے۔یہ تاریخ ہے جسے ہم اگلی نسل کو سکھانا چاہتے ہیں۔‘
مدینہ کی ثقافت اور قبیلے سے متاثر ہو کر اپنی بیٹی کو سفید اور سنہری لباس پہنانے والی ایک ماں نے کہا، ’مجھے لگتا ہے کہ میں ماضی میں واپس آ گئی ہوں اور ایک ایسے وقت میں رہ رہی ہوں جسے میں نے 30 سال پہلے بچپن میں یاد کیا تھا۔‘
آنکھوں میں آنسو لیے انہوں نے کہا: ’مجھے امید ہے کہ ہم ہمیشہ اس طرح جی سکیں گے اور آنے والی نسلوں کو اپنا وقت اور طرز زندگی دکھا سکیں گے۔‘