حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے 18 اضلاع میں تحصیل چیئرمین اور میئر کے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کردیے۔
پی ٹی آئی کے کچھ کارکنان کا الزام ہے کہ انتخابات کے پہلے مرحلے کی طرح اس مرحلے میں بھی پارٹی میں اقربا پروری کی بنیاد پر ٹکٹس جاری ہوئے ہیں۔ تاہم جماعت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
خیبر پختونخوا میں الیکشن کمیشن کے مطابق بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں 18 اضلاع کی 65 تحصیلوں میں پولنگ 31 مارچ کو ہوگی جس کی تمام تر تیاریاں مکمل کی گئی ہیں۔
پی ٹی آئی کو انتخابات کے پہلے مرحلے میں کچھ اضلاع میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تو پارٹی چیئرمین اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ٹویٹ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ٹکٹوں کی تقسیم درست طریقے سے نہیں کی گئی اور اگلی مرتبہ وہ خود ٹکٹوں کے اجرا کی نگرانی کریں گے۔
تاہم اس مرحلے میں کچھ اضلاع میں جن امیدواروں کو ٹکٹ جاری ہوئے ہیں ان میں سے اطلاعات کے مطابق کوئی رکن قومی اسمبلی کا بیٹا ہے یا کسی رکن صوبائی اسمبلی کا بھتیجا یا بھائی ہے۔
ان میں ایک ایسا ضلع لوئر دیر ہے، جہاں ٹکٹوں کی تقسیم پر تنازعے کی وجہ سے پی ٹی آئی ہی کے کچھ اراکین آزاد حیثیت سے پی ٹی آئی کے امیدواروں کے خلاف میدان میں اتریں گے۔
ضلعے میں مجموعی طور سات تحصیلوں پر انتخابات ہوں گے اور تمام سات تحصیلوں پر پی ٹی آئی کے کچھ ناراض اراکین آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیں گے۔
تحصیل ثمر باغ سے تعلق رکھنے والے علی شاہ مشوانی تقریباً ایک دہائی سے پی ٹی آئی سے وابستہ ہیں، مگر وہ یہ انتخابات آزاد حیثیت سے لڑیں گے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ لوئر دیر کی سات تحصیلوں میں جن امیدواروں کو ٹکٹس جاری ہوئے، ان میں سے ایک رکن قومی اسمبلی محمد بشیر کے بھیتجے، ایک رکن صوبائی اسمبلی شفیع اللہ خان کے بیٹے، اور ایک رکن قومی اسمبلی محبوب شاہ کے بھائی ہیں۔
اسی طرح ایک ٹکٹ رکن قومی اسمبلی محمد بشیر کے کاروباری ساتھی ہیں۔
علی شاہ نے بتایا: ’یہاں پر پی ٹی آئی کا نظریاتی گروپ موجود ہے اور ہم 2013 کے انتخابات کے بعد پارٹی کو یہی کہہ رہے ہیں کہ اقربا پروری کی بنیاد پر ٹکٹس تقسیم نہ کی جائیں، لیکن ایسا نہ ہوسکا اور اب ہم خود تمام تحصیلوں سے آزاد حیثیت سے امیدوار کھڑے کریں گے۔‘
علی شاہ نے بتایا کہ بلدیاتی انتخابات کے پہلی مرحلے میں ایسا ہی ماحول بن گیا تھا امیدواروں کو ٹکٹس رشتہ داری کی بنیاد پر دیے گئے تھے لیکن پھر عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ دوسرے مرحلے میں ایسا نہیں ہوگا۔
علی شاہ نے کہا: ’عمران خان ابتدا سے موروثی سیاست کے خلاف ہیں لیکن کافی عرصے سے وہ موروثی سیاست کو پروان چڑھا رہے ہیں۔
’اب اس کی جھلک ہم نے دیکھ لی کہ حقیقی کارکن کو نظر انداز کیا گیا اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے رشتہ داروں کو ٹکٹس جاری ہوئے۔‘
علی شاہ سے جب پوچھا گیا کہ کیا آزاد حیثیت میں انتخابات لڑنے والے پی ٹی آئی کے ناراض اراکین سے ووٹ تقسیم نہیں ہوگا، تو ان کا کہنا تھا کہ ووٹ ضرور تقسیم ہوگا مگر آزاد امیدوار عوام کے ٹکٹ سے میدان میں کھڑے ہوں گے اور عوام ہی آزاد امیدوراوں کو منتخب کرے گی۔
ان کا کہنا تھا: ’ہم پارٹی کے نظریاتی کارکن ہیں اور پارٹی کے منشور میں یہ واضح لکھا ہے کہ پی ٹی آئی میں موروثی سیاست نہیں ہوگی تو پی ٹی آئی کے کارکن کیوں ایک موروثی سیات کی بنیاد پر ٹکٹ حاصل کرنے والے شخص کو ووٹ دیں گے؟‘
کرم سے تعلق رکھنے والے خیال الرحٰمن بھی انتخابات آزاد امیدوار کے طور پر لڑ رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ موروثی سیاست کی وجہ سے کیا کیونکہ کئی ایسی امیدواروں کو ٹکٹ ملا جو کسی رکن قومی یا صوبائی اسمبلی کے اراکن کے رشتہ دار ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ اگر وہ جیتے تو سیٹ پی ٹی آئی کو تحفے میں دیں گے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے صوبائی سیکریٹری اطلاعات ظاہر شاہ طورو کا کہنا ہے کہ تمام ٹکٹس میرٹ پر دیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’عمران خان نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اگر پارٹی کے کسی ایم این اے یا ایم پی اے کا رشتہ دار میرٹ پر اترتا ہے اور ٹکٹ کا حق دار ہے، تو اس کو ٹکٹ سے صرف اس لیے محروم کیا جائے گا کہ وہ ایم این اے یا ایم پی اے کا رشتہ دار ہے۔‘
ان سے سوال کیا گیا کہ آیا پی ٹی آئی کے کارکنان کا آزاد حیثیت میں انتخابات لڑنا پارٹی ووٹ کو تقسیم کرے گا، تو ان کا کہنا تھا کہ تمام کارکنان کو پارٹی کے ٹکٹ جاری کرنے کے فیصلے کا احترام کرنا چاہیے۔
ان کے مطابق اس مرتبہ باقاعدہ ویلج اور تحصیل سطح پر کمیٹیاں بنائی گئی تھیں، اور انہیں کمیٹیوں سے امیدواروں کے نام مرکزی قیادت کو ارسال کیے گئے تھے، جس کے بعد ٹکٹس جاری ہوئے۔
ان کا کہنا تھا: ’جو لوگ ناراض ہیں، ان سے ہم پارٹی کی سطح پر بات بھی کریں گے اور ان کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے اور ان کو یہ باور کرائیں گے کہ پارٹی فیصلے کا احترام کرنا چاہیے۔‘